اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سعودی عرب کے دورے پر ہیں، جہاں وہ سعودی قیادت کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ریاض میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں جس میں باہمی فوجی تعاون اور تربیتی امور پر تبادلہ خیال کیا۔پیر کو آئی ایس پی آر کے مطابق
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچے جہاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی جنرل اسٹاف ہیڈ کوارٹر ریاض کا دورہ کیا، آرمی چیف کی سعودی چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاد بن حامد اور کمانڈر جوائنٹ فورس لیفٹیننٹ جنرل (اسٹاف) فہد بن ترکی السعود سے ملاقاتیں ہوئیں جس میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تربیت اور دفاعی تعاون کو مزید فروغ دینے پر گفتگو کی گئی۔ قبل ازیں سعودی وزارت دفاع پہنچنے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا سعودی چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاد بن حامد نے استقبال کیا، جس کے بعد انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے دورے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ دو سال پہلے جب عمران خان اقتدار میں آئے تو پاکستان کی معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے ریاض نے 6 ارب ڈالر کی امداد کی حامی بھری ان چھ ارب میں سے تین ارب پاکستانی زرمبادلہ بڑھانے کے لیے اور بقیہ پیسہ ادھار پر تیل کے لیے دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ تاثر یہ ہے کہ یہ مالی امداد ممکن بنانے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا اہم کردار تھا۔دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان حکومت کی سعودی پالیسی کچھ ابہام کا شکار رہی ہے، پاکستان نے کبھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی بات کی تو کبھی ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر سعودی عرب کو چیلنج کرنے کا تاثر
دیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کو مسئلہ کشمیر پر تنقید کا نشانہ بنایا تو نئی تلخی پیدا ہوئی۔رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہناہے کہ ریاض چاہتا ہے کہ اسلام آباد واضح ایران مخالف لائن لے، سعودی عرب کی موجودہ لیڈرشپ نے کئی معاملات میں انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا ہے اور وہ بڑی سرگرمی سے اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے
لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب چاہے گا کہ پاکستان ایران کی بجائے سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو لیکن اسلام آباد کے لئے ایسا کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہاکہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہے گی، اب ہمیں سعودی عرب سے کسی فیاض کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ممکن ہے کہ ریاض پاکستان کے خلاف مذید سخت اقدامات کرے۔ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے
دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا کہ سعودی عرب کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ ہم ایران مخالف پالیسی اپنائیں لیکن پاکستان ایران مخالف لائن نہیں لے سکتا۔پاکستان اپنی پالیسی غیر جانبدارانہ رکھنا چاہے گا۔معروف دفاعی مبصر جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب نے ہمیں کشمیر کے مسئلے پر سپورٹ نہیں کیا تو ہم نے بھی تو یمن میں فوج بھیجنے سے انکار کیا تھا، ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور وہ اسی تناظر
میں پالیسی بناتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سعودی عرب نے غصے میں پاکستان سے ایک ارب ڈالر واپس لیے ہیں، سعودی عرب کی معیشت زبوں حال ہے اور آرامکو کے منافع میں کمی آئی ہے۔ لہذا اگرانہوں نے ہم سے پیسے واپس مانگ لئے تو کون سی بڑی بات ہے وہ ہمارا دوست ملک ہے اور ہم کو ان کی مجبوری سمجھنا چاہیے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا کہ پاک سعودی تعلقات میں بہتری آجائے گی۔