ہفتہ‬‮ ، 28 ستمبر‬‮ 2024 

شہبازشریف نے طاقتوروں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے کیا کہا تھاجس کے بعد انہیں بچا لیا گیا ؟ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان کیا اتفاق ہو چکا تھا ، وہ کس صورتحال سے نبردآزما ہونے کو تیار نہ تھے ؟ چونکا دینے والے انکشافات

datetime 17  جولائی  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)نومبر 2019ء میں ایک فارمولہ طے پاگیا تھا کہ مرکزمیں عمران خان کو گھر بھیج کر مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر موقع دے دیا جائے۔ شرط مگریہ کہ مرکز میں شریف خاندان کے کسی فرد کی بجائے شاہد خاقان عباسی یا ایازصادق کو وزیراعظم بنایا جائے۔روزنامہ جنگ میں شائع سینئر صحافی اعزاز سید اپنے کالم کے مطابق غالبا ایاز صادق پر اتفاق بھی قائم کرلیا گیا تھا۔

پنجاب کی کمان عثمان بزدار سے لے کر گجرات کے چوہدریوں کے حوالے کرنا تھی۔ پرویز الٰہی ایک موثر وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ماضی میں بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے اب انہیں ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔مجوزہ منظر کشی کرنے والوں کا خیال تھا کہ مرکز میں مسلم لیگ ن کے ہاں میں ہاں ملانے والے چہرے اور پنجاب میں تجربہ کاروزیراعلیٰ کی موجودگی سے منجمد کاروبار بحال ہوجائے گا جس سے معیشت کی ڈوبتی کشتی ایک بار پھر کامیابی سے سفر کرنے لگے گی اور عام آدمی کو اطمینان حاصل ہوگا۔یہ سب طے تھا۔ مگر ایک کردار کی نکی جئی ہاں لازمی تھی اور وہ تھا برطانیہ میں بیٹھا میاں نوازشریف۔ جس نے یہ کہہ کر سارے منصوبے کا ستیاناس کردیا کہ’’اس سسٹم کو مصنوعی ذریعوں سے گرانے کی بجائے خود گرنے دیں‘‘۔ شاید اندرخانے نوازشریف اور شہباز شریف کا یہ اتفاق بھی تھا کہ اگر اس کھیل میں اقتدار کا ہما خاندان سے باہرکسی کے سرپر بیٹھ گیا تونہ صرف ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچے گا بلکہ پارٹی کو کنٹرول کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔اس انکار کے بعد شہبازشریف نے وطن واپس آکر طاقتوروں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے اپنی مجبوریوں کی کتھا سنائی۔ یوں مشکل سے تیارکیا گیا سارا منظر نامہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگیا۔ اسی دوران کورونا نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور توجہ سیاست سے ہٹ کر صحت کی جانب مبذول ہوگئی۔دوسری طرف عمران خان بھی شہباز شریف کےبارے میں

پوری سن گن رکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مشیراحتساب بیرسٹرشہزاد اکبر کوہدایت کی۔ یوں شہباز شریف کونیب کے ذریعے اندرکرانے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔ مگر شہبازشریف کو طاقتوروں نے بچا لیا۔نوازشریف اور شہبازشریف میں تبدیلی کے لیے نئے انتخابات پرمکمل اتفاق ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ایسی صورت میں پنجاب میں ان کی جماعت مسلم لیگ ن ہی کلین سوئپ کرے گی۔ اسطرح شریف خاندان عوامی طاقت سے آزادانہ فیصلے کرے گا۔ یہ بات شایدطاقتور حلقوں کو پسند نہیں۔

موضوعات:



کالم



خوشحالی کے چھ اصول


وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!

میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘…

سٹارٹ اِٹ نائو

ہماری کلاس میں 19 طالب علم تھے‘ ہم دنیا کے مختلف…

میڈم چیف منسٹر اور پروفیسر اطہر محبوب

میں نے 1991ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے…