اسلام آباد(این این آئی) قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے وفاقی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے راتوں رات قیمت بڑھا کر غریب کی جیب پر ڈاکہ ڈالا ،جو مافیا کی جیب میں جائیں گے ،ڈکیتی پہ ڈکیتی ہورہی ہے ،گندم تیل ادویات سب پر ڈاکے ڈالے گئے کہاں تھے خفیہ ادارے ؟آٹا مافیا گندم مافیا اور چینی مافیا نے اربوں روپے کے ڈاکے مارے ،
ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں ؟انشاء اللہ امید ہے بی آر ٹی قیامت تک مکمل ہو جائے گی ،بی آرٹی کی انکوائری بھی ایف آئی اے کرے،پی آئی اے رپورٹ نے دنیا بھر میں بدنامی کروا دی،اپنی نالائقی چھپانے کے لیے ملبہ پائلٹس پر ڈال دیا گیا،چینی کی رپورٹ پر من وعن عمل کیا جائے۔ ہفتہ کو وزارت داخلہ کی کٹوتی کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئیمسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہاکہ وزارت داخلہ کے ماتحت کئی ادارے ہیں ،ان اداروں میں ایف آئی اے اور آئی بی بھی شامل ہیں،ہم نے اپنی آخری بجٹ میں ان کیلئے ایک سو نو ارب رکھے گئے،گذشتہ بجٹ میں ایک سو انتالیس ارب روپے رکھے گئے،اس بجٹ میں ایک سو ستاون ارب رکھے گئے،جب آپ نے کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا تو اس وزارت کے بجٹ میں اضافہ کیوں؟،تنخواہیں اور پنشن میں آپ نے کوئی اضافہ نہیں کیا، پھر بھی بجٹ میں تیرہ فیصد اضافہ کیوں،یہ کھانچے ہوتے ہیں، کیونکہ یہ دیگر اخراجات کیلئے رکھے گئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہاکہ آپ کی بنیاد جھوٹ ، پروپیگنڈا پر ہے،حکومت کا روز کام صرف پروپیگنڈا کرنے پر ہے۔ انہوںنے کہاکہ رات سے پوری دنیا بل بلا رہی ہے،لوگ کہ رہے ہیں کہ تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی ہوئی ہے،حکومت نے پیٹرول مافیا کے ساتھ ملکر عام آدمی کی جیب سے ڈکیتی کی ہے ،حکومت نے پیٹرول سستا کیا لوگ رل گئے پیٹرول تلاش کرتے کرتے ،پیٹرول مافیا نے حکومت کو بلیک میل کیا،حکومت نے راتوں رات قیمت بڑھا کر غریب کی جیب پر ڈاکہ ڈالا
جو مافیا کی جیب میں جائیں گے ،حکومت کی ڈکیتی اربوں سے کم کی نہیں ہے،مافیا حکومت میں موجود ہے جس نے حکومت سے فیصلہ کرایا۔ انہوںنے کہاکہ کہا جاتا تھا کہ یہ ڈاکوؤں ہیں چور ہیں آج بتایا جائے ڈکیتی گزشتہ رات کس نے ماری،ڈکیتی پہ ڈکیتی ہورہی ہے ،گندم تیل ادویات سب پر ڈاکے ڈالے گئے کہاں تھے خفیہ ادارے ؟،خفیہ اداروں کو ان مافیاز کی بجائے سیاستدانوں کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
انہوںنے کہاکہ چینی کی قیمت اس وقت اسی روپے سے اوپر ہے ،آپ کے کمیشن کی رپورٹ کو عوام چاٹیں کیا کریں ،مافیا جو ہے وہ اس وقت چھایا ہوا ہے۔سونامی براستہ بد ترین ناکامی اور بد نامی کی جانب گامزن ہے۔راناثناء اللہ نے کہاکہ ،اے درد بتا کچھ تو ہی بتا،ہم سے تو یہ معمہ حل نہ ہوا،ہم میں ہے دل بیتاب نہاں،یا آپ دل بیتاب ہیں ہم۔ انہوںنے کہاکہ چیئرمین نیب نے جب پریس کانفرنس کی تو اس ک
ی ویڈیو سامنے آ گئی ،نیب کے چیئرمین کی ویڈیو کس نے بنائی آپ نے ،نیب کی ویڈیو کس نے چلوائی آپ نے ،اس کے شوہر کو کس نے رہا کرایا آپ نے۔ انہوںنے کہاکہ پبلک فنڈز کا ایمانداری سے استعمال کسی بھی پبلک آفس ہولڈر کی ذمہ داری ہے،ایف آئی اے او آئی بی جیسے ادارے حکومت کو معلومات فراہم کرتے ہیں،ان ادراوں کے لیے گزشتہ بجٹ میں 28 فیصد اضافہ کیا گیا،کلاس فور کے ملازم اور
پنشنز میں اضافہ نہیں کیا گیا،اس بجٹ میں 13 فیصد کا اضافہ کیوں کیا گیا یہ بتایا جائے؟آپ گنواتے ہیں کہ ہم کفایت شعاری مہم کر رہے ہیں پیسے بچا رہے ہیں،یہاں تو حکومت کے کھانچے لگ رہے ہیں،یہ کہتے ہیں پچھلی حکومت میں 4.16 ارب روپے کے کھانچے لگے،ان کی حکومت میں یہ کھانچے 10 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم ہاوس کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ 98 کروڑ روپے کہاں خرچ ہوئے،
اب اس کیلئے 1 ارب 17 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں،علی زیدی کہتے کہ 6 گھنٹے اجلاس ہوئے صرف چائے بسکٹ دیے گئے،کیا یہ 9 کروڑ 80 لاکھ کے چائے اور بسکٹ کھا جاتے ہیں،یہاں چور چور ، ڈاکو ڈاکو کی گردان ہوتی رہی۔ رانا ثناء اللہ نے کہاکہ پی آئی اے کی رپورٹ جو وزیر نے پیش کی وہ ابتدائی رپورٹ ہے ،مرحوم پائلٹ کو جس طرح ذمہ دار ٹھہرایا گیا وہ انتہائی نامناسب ہے ،وفاقی وزیر نے
خود ہی پی آئی اے کو دنیا کے سامنے بد نام کر دیا صرف اس لیے کہ ن لیگ اور پی پی کو بدنام کیا جا سکے،اب دنیا کے سامنے پی آئی اے بالکل ختم ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل نے کہاکہ سات ارب روپے کا پیٹرول پر ٹیکا لگا ،ایف آئی اے کا کام ہے کہ معلوم کریں کہ کون لوگ تھے جنھوں نے سستا پیٹرول اکھٹا کیااور اب مہنگا پیٹرول بیچ رہے ہیں ،ایف آئی اے کو معلوم کرانا چاہیے کہ مافیا کے
پیچھے کون ہے ، ان کے حصہ دار کون ہیں ،سہیل ایاز ایف آئی اے کے حوالے ہوا تھا ، اس نے تیس بچوں کا ریپ کیا ،سہیل ایاز کی تحقیقات آج تک ایف آئی اے نے نہیں کی ،انشاء اللہ امید ہے بی آر ٹی قیامت تک مکمل ہو جائے گی ۔ انہوںنے کہاکہ ایک وزیر ایک کروڑ کے پکوڑے کھا گئے تھے ، بل ابھی بھی کراچی پورٹ ٹرسٹ میں پڑا ہے۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ رات عوام پر مہنگائی کا بم گرایا گیا،
تاریخ میں اس سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کبھی اس قدر اضافہ نہیں ہوا،ایف آئی اے کو پتہ چلانا چاہیے کہ اس کے پیچھے کون ہے،ایف آئی اے کو یہ سب کیوں نظر نہیں آٹی،ایف آئی اے کو صرف اپوزیشن نظر آتی ہے،سانحہ سوہیوال کا کیا بنا، ریاست مدینہ میں،یہاں مکے لہرائے گئے، درود بھی پڑھے گئے۔ انہوںنے کہاکہ جب لوگ ڈی پورٹ ہو کر آتے ہیں تو ان کو ایف آئی اے کو دیا جاتا ہے،
یہ لوگ جعلی پاسپورٹس اور ویزوں پر چلے کیسے جاتے ہیں؟2010 میں انسداد منی لانڈرنگ بل پاس کیا تھا،اب ایک اور بل حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ لوگ بات کر رہے ہیں کہ معاملہ مک گیا ہے،عام طور پر اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکومت چلی جائے،یہ واحد حکومت ہے کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ یہ بیٹھ کر حکومت کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے خرم دستگیر خان بھی حکومت پر برس پڑے
اور کہاکہ یہ حکومت از مافیا ہے،منجانب مافیا ہے،برائے مافیا ہے،گزشتہ رات مافیا جیت گیا،4 روز آپ سے برداشت نہیں ہوا،اس سے لگتا ہے کہ ریونیو ختم ہو چکا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پی آئی اے رپورٹ نے دنیا بھر میں بدنامی کروا دی،اپنی نالائقی چھپانے کے لیے ملبہ پائلٹس پر ڈال دیا گیا،آج پوری دنیا میں بڑی ائیرلائنز ہمارے پائلٹس کو نکال رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ چینی کی رپورٹ پر من وعن عمل کیا جائے،
چینی کی قیمت بڑھنے کا کھرا وزیراعظم اور کابینہ تک جاتا ہے،ڈھونڈنا تھا کہ دسمبر 2018 سے ابتک چینی کی قیمت 55 سے 90 روپے کیسے ہوئی،رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمت عمران خان کی چینی برآمد کرنے کے فیصلے سے بڑھی،ایف ائی اے کے مطابق چینی بڑھنے کی وجہ وفاقی کابینہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ دیا،جو ایوان میں تقریر کرتا ہے اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے،
حمزہ شہباز ایک سال سے جیل میں کیوں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ میر شکیل الرحمان کیوں 103 دن سے جیل میں ہے ؟ کیونکہ سرکارکے ادارے اظہار رائے کو روکنے میں الہ کار بن گئے ہیں ۔خرم دستگیر خان نے کہاکہ ملک میں افغانستان ایران کے بارڈر پر پھر دہشتگردی بڑھ رہی ہے،سب کچھ افواج کے کاندھے پر نہیں ڈالا جاسکتا وزارت داخلہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں،جو کسر رہ گئی تھی
پوری کر دی۔نوابزادہ افتخار نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ایک سال میں کئی بار پنجاب میں آئی جی بدلے گئے،حکومت کی کارکردگی صرف اجلاس کی حد تک ہے،اپوزیشن ارکان جھوٹے مقدمات بھگت رہے ہیں،آج کرپشن کی ریٹنگ میں پاکستان 2 پوائنٹ اوپر گیا ہے،کرپشن کا ریٹ اب 10 ہزار سے 30 ہزار تک پہنچ گیا ہے،ملک میں لاء اینڈ آرڈر کا بدترین مسئلہ بن چکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے کہاکہ وزارت داخلہ کا بہت اہم کردار ہے،قومی اندونی سکیورٹی کی ذمہ داری اس وزارت کی ہے،وزیر داخلہ رہ چکا ہوں اس لیے چاہتا ہوں جن نکات کی نشاندہی کروں حکومت اس پر غور کرے،پاکستان نے کئی عشروں سے جاری دہشتگردی پر قابو پایا،اے پی ایس کا واقعہ بہت بڑا سانحہ تھا،اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے سیاسی اور عسکری قیادت کو اکٹھا کیا،
جو ڈی چوک پر بیٹھ کر نواز شریف کو برا بہلا کہتے تھے ان کو بھی عزت دے کر ٹیبل پر بٹھایا گیا،نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور دہشتگردی پر قابو پایا،کراچی سمیت پورے ملک میں امن ہوا،ہم نے فورس کے ذریعہ دہتشگردی جیسے کینسر سے مقابلہ کیا،سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے شہادت دی۔احسن اقبال نے کہاکہ ہماری حکومت 2018 میں ختم ہوئی،2018 میں نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی تیار کر کہ دی تھی،
جو روڈ میپ تیار کیا تھا اس پر عمل نہیں کیا گیا،خدشہ ہے کہ جس کینسر پر قابو پایا تھا وہ دبارہ نہ پھیل جائے،ریاست جبر کے ساتھ نہیں اصولوں پر چلتی ہے،قانون، جمہوریت ، انصاف ریاست کو مضبوط کرتے ہیں،ہمارے دور کے اہم پراجیکٹس کو ختم کیا جا رہا ہے،وزارت داخلہ کے ترقیاتی فنڈ کو ختم کیا جا رہا ہے،اسلام آباد میں ماڈرن جیل کا منصوبہ 2020 میں مکمل ہونا تھا،وزیر اعظم کہتے تھے کہ
سبز پاسپورٹ کی عزت بحال کروائونگا،سبز پاسپورٹ کی عزت اس لیے نہیں کیونکہ جعلی بنتے ہیں،جعلی پاسپورٹ سے بچنے کے لیے ای پاسپورٹ کا منصوبہ شروع کیا مگر اس کو ختم کر دیا گیا،نیب کے بعد ایف آئی اے کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے،ترکی نے ڈرامہ بنایا ارتغل جس پر اس کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے بھی بہت ڈرامے بنائے۔ انہوںنے کہاکہ وزارت داخلہ اندرونی قومی سیکیورٹی صورتحال کی
ذمہ دار ہے،پاکستان نے دہشتگری کی وبا کا سامنا کہا اور شکست دیکر کامیابی حاصل کی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان ان گنتی کے ممالک میں شامل ہے جس نے کسی عشرے پر محیط دہشتگری کو قلیل مدت میں ختم کیا،آرمی پبلک سکول پر حملہ قومی سانحہ تھا جس پر وزیراعظم نواز شریف نے عسکری اور سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھایا،ملک کے مفاد میں نواز شریف نے چوبیس گھنٹوں میں نیشنل ایکشن پلان بنایا
جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی،اپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے دہشتگردی کو ختم کیا گیا،سول اوڑ ملٹری قیادت سب نے دہشتگری کے خلاف جنگ کو ملکر لڑا،اس سے قبل امریکی کولیشن فنڈ سے جنگ لڑی جاتی تھی۔ احسن اقبال نے کہاکہ ہم نے اپنی بقا کی جنگ کو پیٹ پر پتھر باندھ لڑا، پانچ سو ارب سے زائد وسائل مسلح افواج کو دئیے،آپریشن رد الفساد اور ضرب عضب سے دہشتگری کے
کینسر کا آپریشن کیا۔ انوںنے کہاکہ ہم نے 2018 میں نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی کا فریم ورک مکمل کیا جس کی کابینہ نے منظوری دی،اس کا مقصد دہشتگری کی جڑوں کو ملک سے ختم کرنا اور عوامی ناراضگیوں کا ختم کرنا تھا،نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی فریم ورک تیار کر کے اس حکومت کے حوالے سے کیا گیا،دو سال گزرنے کے بعد اس نیشنل انٹرنل پالیسی کے ایک نقتے پر عمل نہیں کیا،مجھے تشویش ہے
ہماری حاصل کی کامیابیوں پر پانی پھر سکتا ہے،جن علاقوں کامیابیاں حاصل کیں وہاں سے آج شدت پسندی کی اوازیں اٹھ رہی ہیں،عسکری قیادت سے بھی اپیل ہے اپنی کامیابیوں کو آگے لیکر چلیں،عسکری کامیابیوں کو سماجی، اقتصادی پیرائے میں مستقبل بنیادوں پر آگے بڑھائیں۔ انہوںنے کہاکہ آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد کے بعد آپریشن مرہم اور آپریشن اخوت کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی شکایات کو
دور کیا جا سکے،حکومت نے گزشتہ ادوار میں وزارت داخلہ کیلئے شروع کیے منصوبوں پر کام روک دیا ہے،نیشنل پولیس اسپتال کا منصوبہ بھی روک دیا گیا ہے،ایف سی فورس نے دہشتگری کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں آج بھی ان کے پاس پرانا سازوسامان ہے،ایف سی کے جوانوں کیلئے نئے سازوسامان کی فراہمی کے منصوبے کو بھی روک دیا گیا ہے،ای پاسپورٹ کا منصوبہ بھی التوا کا شکار ہے،
موجودہ پاسپورٹ کو ای پاسپورٹ سے تبدیل کیا جائے،میں نے کوشش کی ایف آئی اے کو سیاسی انتقامی کارروائی کیلئے استعمال نہ کیا جاسکے،حکومت ایف آئی اے کو نیب ٹو بنانے کی کوشش کر رہی ہے،اس کی مذمت کرتے ہیں،ایف ائی اے افسران سیاسی ایجنڈے پر عملدرآمد سے انکار کریں اور اپنے ادارے کی
روایات کی پاسداری کریں۔مولانا صلاح الدین نے کہاکہ ہماری جماعت کا موقف تھا کہ فاٹا کو کے پی میں ضم نہ کیاجائے،اب ضم ہوچکا بتایاجائے مدینہ کی ریاست میں اب وہاں کیا تبدیلی آئی ہے،پہلے فاٹا میں کالاقانون تھا اب کیوں ظلم ہورہا ہے،ریاست مدینہ میں کشمیر کا سودا ہوا،بتایاجائے کشمیر کتنے میں بیچا ہے۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر عوام کے ساتھ ہوا۔