اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار رائوف کلاسرا اپنے کالم ’’کرپشن پر سب کا حق ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔یاد پڑتا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔ مظفر گڑھ سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے قیوم جتوئی وزیر تھے۔ پیپلز پارٹی کو پروا نہیں تھی کتنی کرپشن ہو رہی ہے۔ جب پوری حکومت صدر زرداری کے چھ ارب روپے کی منی لانڈرنگ بچانے میں
مصروف تھی تو پھر بھلا کس نے کسی وزیر کو روکنا تھا۔ فری فار آل تھا۔ جب بادشاہ کسی باغ کا مفت میں سیب کھائے گا تو فوج پورا باغ اجاڑ دے گی۔ وہی ان دنوں ہو رہا تھا۔جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دو تین ماہ بچ گئے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے اسلام آباد غیر ملکی فوج کے نرغے میں آ گیا ہے۔ جس کے ہاتھ جو لگا وہ سمیٹ رہا تھا۔ ای سی سی اجلاس دو دن تک مسلسل ہوئے۔ ان اجلاسوں میں تیس نکات والے ایجنڈے پر بات ہوئی اور زیادہ تر ایجنڈا زرداری کے قریبی ڈاکٹر عاصم حسین کی سمریاں تھیں۔ ان اجلاسوں میں کس نے کیا کمایا وہ الگ کہانی ہے۔ اور تو اور اس وقت کی سپیکر قومی اسمبلی نے، جو پہلے ہی چوراسی کروڑ روپے بینک قرضہ معاف اور چالیس لاکھ روپے اپنے کینسر کے علاج پر امریکہ میں عوام کی جیب سے خرچ کرا چکی تھیں، سوچا ہو گا، اب آخر میں اور کیا ہو سکتا ہے؟اسمبلی ختم ہونے سے آٹھ دن پہلے خود ہی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اپنے لئے تا عمر مراعات منظور کر کے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ جب ہر طرف یہ کلچر تھا تو قیوم جتوئی سے یہ سوال ہوا کہ جناب پیپلز پارٹی ہر طرف مال بنا رہی ہے، ہر کوئی جیبیں بھر رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے؟ قیوم جتوئی نے پوری سادگی اور پوری ایمانداری کے ساتھ جواب دیا: جناب کیا ہمارا کرپشن پر کوئی حق نہیں ہے؟ جب سب اس ملک میں کرپشن کرتے آئے ہیں تو اب ہمارے کرپشن کرنے پر آپ لوگوں کو کیا تکلیف ہے؟ان کا کہنا تھا: اب کرپشن کی ان کی باری ہے۔ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئیں۔
اس وقت قیوم جتوئی کوئٹہ میں تھے۔ انہیں گیلانی صاحب نے اسلام آباد بلایا اور کہا استعفیٰ دے دیں۔ گیلانی صاحب نے بھولے سرائیکی کو سمجھایا ہو گا، پگلے سب جانتے ہیں ہم کیا کرتے ہیں، تم بھی کرتے رہتے، یہ تمہیں کس نے کہا کہ کیمرے پر یہ باتیں شروع کر دو، تمہیں سزا کرپشن کرنے کی نہیں مل رہی بلکہ کرپشن پر سرعام حق جتانے کی وجہ سے دی جا رہی ہے۔آپ پوچھیں گے آج برسوں پرانی باتیں کیوں یاد آ گئیں؟
وجہ وزیر مملکت داخلہ شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس بنی جو ہر ماہ پریس کانفرنس کرنے آ جاتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ شریف خاندان کتنا کرپٹ ہے اور کس طرح وہ لوٹتے رہے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ شہزاد اکبر ان دنوں کہاں تھے جب صدر اسحاق خان نے 1993 میں نواز شریف کی اسمبلی توڑی تھی تو فیصل آباد سے ایم این اے زاہد سرفراز کو نگران وزیر داخلہ بنایا تھا۔ مجھے یاد ہے انہوں نے
پی ٹی وی پر خاصی دیر تک پریس کانفرنس کی اور قوم کو بتایا تھا شریفوں نے کیسے اس ملک کو لوٹا ہے۔چند ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی تو اس وقت رحمن ملک ایف آئی اے کے ڈائریکٹر تھے اور ان کے بارے مشہور تھا کہ، ناں، نہیں کرتے، اوپر بیٹھا بندہ بس حکم دے، وہ حاضر۔ ان کی یہ خوبی انہیں بہت اوپر لے گئی ہے۔ خیر انہوں نے شریفوں پر کام وہیں سے شروع کیا جہاں چھوڑ گئے تھے۔ لندن فلیٹس پر پوری انکوائری کرائی اور رپورٹ بھی چھاپی کہ شریفوں نے کیسے یہ فلیٹس منی لانڈرنگ سے خریدے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟