اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم ’’ روزہ کیوں توڑا ؟ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔دوسری کہانی بھی ایسی ہی ہے، ایک طاقتور ادارے کے عملیت پسند اور خیر خواہ سربراہ نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ترین کے خلاف چینی اسکینڈل کو حد سے زیادہ بڑھایا گیا تو سیاست میں نقصان ہوگا، اسی طرح کا پیغام جہانگیر ترین کو بھی دیا گیا۔ یوں دونوں طرف اس مشورے کے فیض سے
وقتی طور پر خاموشی چھا گئی ہے مگر اس معاملے کی سنگینی کے پیش نظر اسے زیادہ دیر تک قالین کے نیچے چھپانا مشکل ہوگا، ہر سیاسی معاملے کے کچھ نہ کچھ نتائج و عواقب ضرور ہوتے ہیں۔وزیراعظم نے چینی اسکینڈل میں اپنے ہی سیاسی ساتھی جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات کیں تو انہیں اس کا فوری سیاسی فائدہ ہوا، سیاسی گراف اوپر گیا، اب اگر اس اسکینڈل پر مٹی ڈال دی جاتی ہے تو پھر وزیراعظم کے لئے آنے والے دنوں میں یہ ایک سیاسی مسئلہ بن جائے گا اور ہر جگہ سوال ہوگا کہ اپنوں کی باری آئی تو مصلحت آڑے آگئی جبکہ سیاسی مخالفوں کو رگڑا لگاتے ہوئے کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ملک کا سیاسی منظر نامہ دیکھیں تو ہر طرف چپ کا روزہ ہے۔ مریم نواز چپ ہے اور اپوزیشن غیر متحرک، ایسے لگتا ہے کہ حکومت کیلئے بالکل فری ہینڈ ہے لیکن یہ سب ظاہری ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہے، کورونا نے ترقیاتی بجٹ ختم کردیا ہے، جون کے بعد سے کوئی معجزہ رونما نہ ہوا تو حالات دگرگوں ہو سکتے ہیں۔ پھر کیا ہوگا، کسی کو بھی علم نہیں۔۔۔