اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’گھر سے باہر نکل کر اذیت ناک موت خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں!‘‘ ہم جیسے غریب ملکوں کا موسم ہے، قیاس ہے کہ شدید گرمی میں شاید اِس وائرس سے چھٹکارا مل جائے، کرونا وائرس کیلئے ہمارا جسم اچھا میزبان ثابت کیوں نہیں ہورہا ،پاکستانیوکیلئے چار بڑے اچھے انکشافات سامنے آگئے

datetime 1  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار یاسر پیرزادہ اپنے کالم ’’خاطر جمع رکھیں، دنیا ختم نہیں ہورہی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اگلے پندرہ دنوں میں ہمارے جیسے ملکوں میں اموات کی شرح غیرمعمولی طریقے سے نہ بڑھی تو پھر پتا چلانا پڑے گا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔اِس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہر وائرس پھیلنے کے لیے مخصوص ماحول درکار ہوتا ہے، ممکن ہے

ہمارا جسم اِس وائرس کے لیے اچھا ’میزبان‘ ثابت نہ ہورہا ہو، ہم جیسے غریب ممالک جہاں پہلے ہی لوگ ملیریا اور دیگر وباؤں سے نبرد آزما رہے ہوں وہاں لوگوں میں ایسا مدافعاتی نظام پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں جو اِس وائرس سے بھی لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہر وائرس کی طرح کورونا بھی mutationکے نتیجے میں کمزور ہو گیا ہو جس کی وجہ سے اِن ممالک میں شرح اموات کم ہو رہی ہوں جبکہ دنیا میں جس تیزی سے اِس وائرس پر کام ہو رہا ہے اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اِس کا کوئی نہ کوئی علاج (ویکسین نہیں) جون جولائی تک دریافت ہو جائے گاجس سے کم از کم لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں گی۔ تیسری اچھی خبر ہم جیسے غریب ملکوں کا موسم ہے، قیاس ہے کہ شدید گرمی میں شاید اِس وائرس سے چھٹکارا مل جائے، گو کہ تحقیق کے تمام سائنسی ادارے ابھی ایسی کوئی بھی بات کرنے کی حتمی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چوتھی اچھی خبر یہ ہے کہ اِس وائرس کی ویکسین بہر حال ایک سال کے اندر اندر آ جائے گی کیونکہ یہ کوئی نیا وائرس نہیں، یہ کورونا فیملی کا ہی ایک وائرس ہے اور اِس سے پہلے SARSاور MERSبھی کورونا وائرس کا ہی کارنامہ تھے، ظاہر کہ یہ بیماریاں اب تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔یہ تمام اچھی خبریں میں نے اِس لیے نہیں سنائیں کہ آپ احتیاط چھوڑ کر گھروں سے نکل کر پٹھورے کھانے چل پڑیں، احتیاط بےحد ضروری ہے

کیونکہ کورونا وائرس جب پھیلتا ہے تو پھر دنوں میں مرنے والوں کی تعداد دگنی اور تگنی ہوتی چلی جاتی ہے۔اگلے پندرہ دن بےحد اہم ہیں، اگر ہم نے سماجی دوری کی احتیاط جاری رکھی اور خود کو گھروں میں ہی محصور رکھا تو شاید ہمارے ملک میں یہ وبا پھیلنے سے رُک جائے۔یاد رکھیں، جو لوگ ایک دوسرے کو ڈرپوک ہونے کے طعنے دے رہے ہیں یا گھر میں بیٹھنے کو حماقت سمجھ رہے ہیں

وہ یہ جان لیں کورونا سے ہونے والی موت کوئی عام موت نہیں بلکہ شدید اذیت کی موت ہے جس میں انسان سانس لینے کے قابل نہیں رہتا اور اسے لگتا ہے کہ اُس کے پھیپھڑوں میں کوئی شیشے سے زخم لگا رہا ہے، وینٹی لیٹر اس کی آخری امید ہوتی ہے۔موت کا بےشک ایک دن معین ہے مگر گھر سے باہر نکل کر اذیت ناک موت خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں!

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…