دیوان سنگھ مفتون متحدہ ہندوستان کے ایک مشہور صحافی تھے، یہ دہلی سے ریاست نام کا رسالہ نکالتے تھے اور لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر یہ رسالہ خریدتے تھے، ان کی آپ بیتی اردو کی شان دار ترین کتابوں میں شامل ہے‘ مفتون صاحب نے اپنی کتاب میں کپڑے بیچنے والے ایک دکان دار کا ذکر کیا‘ وہ روز تھان سے کپڑا پھاڑ کر گاہکوں کو بیچتا تھا‘ وہ کپڑا بیچتے بیچتے کپڑا پھٹنے کی آواز کا ایڈیکٹ ہو گیا‘
قسمت کی خرابی سے اس کی دکان بند ہو گئی‘ اب وہ کپڑا پھاڑ نہیں سکتا تھا‘ اس نے اس کا ایک دل چسپ حل نکالا‘ وہ روز ایک گز کپڑا خریدتا تھا‘ قینچی سے اس کا کنارہ کاٹتا تھا اور اپنے ہاتھ سے پورا گز کپڑا پھاڑ دیتا تھا‘ وہ ایک گز کپڑے کے بے شمار چھوٹے پیس کرتا تھا اور کپڑا پھاڑ پھاڑ کر اپنا دن گزار لیتا تھا۔ کل جب ایم کیو ایم نے اچانک وزارت سے استعفیٰ دیا اور یہ اعلان کیا ہم نے طلاق لے لی لیکن ہم رہیں گے ایک ہی گھر میں تو مجھے بے اختیار دیوان سنگھ مفتون کا یہ کردار یاد آ گیا اور مجھے محسوس ہوا شاید ایم کیو ایم بھی خود کو ”ار ریلی وینٹ“ سمجھ رہی تھی‘ یہ دیکھ رہی تھی ہم نہ تین کی خبر میں ہوتے ہیں اور نہ تیرہ کی خبر میں چناں چہ انہوں نے بھی خرید کر کپڑا پھاڑنا شروع کر دیا اور پورے ملک کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ کیا ایم کیو ایم صرف اپنا وجود منوا رہی ہے‘ کیا یہ حکومت کو یہ بتا رہی ہے ہم بھی یہاں بیٹھے ہیں یا پھر یہ واقعی کراچی کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے‘ یہ فیصلہ آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا لیکن حکومت کے ساتھ آج ان کے مذاکرات ناکام ہو گئے، کیا یہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے یا پھر یہ حکومتی اتحاد کے بکھرنے کا نقطہ آغاز ہے کیوں کہ حکومت کے دوسرے اتحادی اخترمینگل‘ جی ڈی اے اور آزاد ارکان بھی چند دنوں میں حکومت پر دباؤ بڑھائیں گے‘ کیا حکومت کمزور ہو رہی ہے، لاہور ہائی کورٹ نے آج جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلے اور خصوصی عدالت دونوں کو غیر آئینی قرار دے دیا۔