بدھ‬‮ ، 18 دسمبر‬‮ 2024 

انٹیلی جنس حکام کس قانون کے تحت فون ٹیپ کرتے ہیں؟ سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران سوالا ت اٹھ گئے

datetime 3  دسمبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس حکام کس قانونی اختیار کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں، انسانی وقار کا معاملہ ہے اس حوالے سے قانونی سازی ہونی چاہیے۔

انہوں نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کے دوران دیے۔ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کرنا منتخب حکومت کو تحلیل کرنے کیلئے کافی ہے، بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا جاسوسی، ٹیلی فون ٹیپنگ اسلام کے خلاف ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا جاسوسی سے گھر کا سکون برباد ہوتا ہے، عدم تحفظ پھیلتا ہے۔ بھٹو کیس میں کہا گیا آرٹیکل 14 انسانی وقار، اور پرائیویسی کا ضامن ہے،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس میں بھی جاسوسی کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا گیا۔ایک موقع پرجسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کیا انٹیلی جنس حکام کو ایسا قانونی اختیار حاصل ہے کہ وہ فون ٹیپ کرسکیں، ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے جواب دیا ایسے کسی قانون کے حوالے سے مجھے کوئی علم نہیں،امریکہ میں ٹیلیفونک ٹیپ کیلئے جوڈیشل افسر کی اجازت ضروری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ یہ انسانی وقار کا معاملہ ہے۔

فون ٹیپ کیلئے کوئی قانون ہونا چاہیے۔ بتایا جائے جاسوسی سے کیا مراد ہے،کیا کسی کا پیچھا کرنا جاسوسی ہے یا کسی کے بیڈ روم میں کیمرے لگانا جاسوسی کے زمرے میں آتا ہے،کیا کسی عدالت کا ایسا کوئی حکم موجود ہے،منیر اے ملک نے کہا کہ میرے علم میں ایسا نہیں ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال برجستہ نے کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہاجج اور اسکے اہل خانہ سمیت کوئی بھی جاسوسی کا نشانہ بن سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے تائید کرتے ہوئے کہا کوئی بھی اسکا شکار ہوسکتا ہے۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل میں مزید کہا جاسوسی کی بنیاد پر اکٹھا کیا گیا مواد عدالت اٹھا کر پھینک دے،سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور انسانی تضحیک کی بنیاد پر اکھٹے کیے گئے مواد کو تسلیم نہ کرے، ریفرنس خارج کیا جائے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ بڑا اہم معاملہ ہے۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہا ہم حقائق سے نتیجہ اخذ کررہے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا نام ہسپانوی زبان میں ہے یہ بات بین الاقوامی ماہر اور شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو یہ کیسے پتہ چلی،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کل شفاف ٹرائل ایکٹ 2013 کو پڑھ کر آئیں، کیس کی سماعت کل بدھ تک ملتوی کردی گئی۔

موضوعات:



کالم



فری کوچنگ سنٹر


وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…