کرائسٹ چرچ(این این آئی)جمعہ کے روز نیوزی لینڈ میں انتہائی بے رحمی اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف 50 نمازیوں کو شہید کرنے ولے دہشت گرد برنٹن ٹرنٹ نے امید ظاہر کی ہے کہ قید کی سزا کے بعد سے امن کا نوبل انعام ملے گا۔عرب ٹی وی کے مطابق نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں 50 نمازیوں کو شہید کرنے سے قبل
اس نے فیس بک پر 75 صفحات پر مشتمل ایک بیان پوسٹ کیا۔ اس بیان میں کہاں اس نے مسلمانوں اور پناہ گزینوں کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کا اظہار کیا وہیں مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے توقع ظاہر کی اگر اس کے ہاتھوں کچھ مسلمان مارے جاتے ہیں تو اس پراسے زیادہ سے زیادہ 27 سال قید کی سزا ہوگی۔ رہائی کے بعد اسے امن کا نوبل انعام دیا جائے گا۔ اس نے اشارۃخود کو جنوبی افریقا کے نسل پرستانہ نظام کے خلاف جدو جہد کرنے والے ہیرو نیلسن مینڈیلا کے ساتھ تشبیہ دی۔ وہ بھی 27 سال قید رہے اور رہائی کے بعد انہیں نوبل امن انعام دیا گیا تھا۔اپنے بیان میں آسٹریلوی دہشت گرد نے لکھا کہ اس نے ناروے کے انتہا پسند سے بھی رابطہ کیا۔ غالبا ٹرنٹن کا اس کے ساتھ رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا ہوگا۔ اینڈرس بیرنگ نے بھی 1500 صفحات پر مشتمل ایک طویل بیان پوسٹ کیا جس کے بعد اس نے ناروے کی تاریخ میں بدترین قتل عام کا ارتکاب کیا تھا۔یہ 22 جولائی 2011ء کا واقعہ ہے جب اینڈرس نے 29سال کی عمر میں اوسلو میں بارود سے بھری ایک کار سے دھماکہ کرکے 8 افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس کے بعد اس نے پولیس کا یونیفارم پہنا ناروے کے اقصیٰ جنوب میں واقع’اوٹویا’ جزیرے پر پہنچا۔ وہاں پر لیبر پارٹی کے 700 کارکن کیمپ لگائے ہوئے تھے۔ ان پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 69 افراد ہلاک ہوگئے۔ اسے حراست میں لے کرمقدمہ چلایا گیا اور اسے صرف 21 سال قید کی سزا سنائی گئی