پیر‬‮ ، 20 جنوری‬‮ 2025 

ٹیکس میں چھوٹ سے خزانےکو پہنچنے والا نقصان

datetime 3  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اپنے دیگر ہم عسر ترقی پذیر ممالک کی طرح حکومتِ پاکستان کی مالیات کا ایک بڑا حصہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مشتمل ہےلیکن دیگر معیشتوں کے مقابلے میں ملکی مجموعی پیداواری کے تناسب ٹیکس وصولی خاصی کم ہے۔  مضمون کے مطابق اس کی وجوہات میں ٹیکس اخراجات، جو ٹیکس کوڈ میں اہم خصوصیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ٹیکس چھوٹ

، خصوصی اسکیمیں، کم شرح اورٹیکس قوانین کے بین الاقوامی میعار سے دیگر انحرافات شامل ہیں۔ ان اخراجات کی وجہ سے مالی سال 17-2018 کے دوران ریونیو میں 5 سو41 ارب روپے کا نقصان ہوا جو وفاقی ٹیکس کلیکشن کا 14 فیصد ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ میں ٹیکس آمدن میں 13.6 فیصد اضافہ اس سے ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ اور معیشیت پر پڑنے والے اسکے اثرات سے اور اسے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں غیر متوقع مجموعی آمدن پر لاگو ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ زائد آمدنی والے افراد پر ٹیکس غیر موثر ہونے کی وجہ سے آمدنی کی تقسیم بھی غیر متوازن ہے۔ آمدنی کے بڑے ذریعے کی حیثیت سے بلاواسطہ ٹیکس پر حد سے زیادہ انحصار، جو مجموعی کلیکشن کا 62 فیصد ہے، کے باعث نظام کو نہ ہی سب کے لیے یکساں اور نہ ہی منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایف بی آر کو کرپٹ ٹیکس افسران کےخلاف انکوائری مکمل کرنے کیلئے 3 ماہ کی مہلت دوسری جانب ٹیکس وصولی میں بہت بڑا خلا اور رضاکارانہ طور پر ٹیکس دینے کی شرح انتہائی کم ہونے کے سبب براہِ راست وصولی کی مد میں ایک بہت بڑا حصہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے اکھٹا کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث متوقع ٹیکس ا ورحاصل ہونے والے ٹیکس میں خاصہ فرق ہوتا ہے، یہ بات بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی۔ حکومتی ٹیکس اصل میں بلاسطہ ٹیکس کی ہی ایک قسم ہے۔

جس کی وجہ سے بلاواسطہ حاصل ہونے والے ٹیکس کی وصولی کا اصل مجموعہ 62 فیصد کی سرکاری شرح کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ادھر اسٹینڈرڈ ٹیکس پالیسی ، جو اچھی طرزِ حکمرانی کی اہم خاصیت سمجھی جاتی ہے، میں ٹیکس کی معافی، رعایت اور دیگر منحرفات سے مالیاتی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس لیے مالی شفافیت قائم کرنے کے لیے حکومتی ڈھانچے اور معاملات ، پالیسی ارادے، پبلک سیکٹر اکاؤنٹس اور تخمینوں تک

عوام کی رسائی ہونی چاہیے۔ اس کےساتھ بجٹ میں ٹیکس اخراجات شامل کرنا بھی شفافیت کی بنیادی ضرورت ہے، جبکہ حکومت سال 07-2006 سے ہر سال پیش کیے جانے والے معاشی سروے میں صرف تخمینہ شائع کرتی ہے۔ خیال رہے کہ ٹیکس اخراجات کے حوالے سے مالیاتی پالیسی آبادی کے مختلف گروہوں کی آمدنی اور بہتر رہن سہن پر اثر انداز ہوتی ہے، جبکہ ٹیکس اخراجات بظاہر ذرائع آمدنی میں غیر یکسانیت کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

موضوعات:



کالم



ریکوڈک میں ایک دن


بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…