اسلام آباد(آن لان) قومی انتخابات 2018ء کے درمیان بے مثال انتخابی مہم چلاتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ‘ بلاول بھٹو زرداری کے خطابات ‘ بیانات ‘ الفاظ اور جذبات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری حقیقی معنوں میں بھٹو اور ان کے نظریات کے وارث ہی نہیں بلکہ محافظ بھی ہیں اور انتخابات کے بعد تمام تر تحفظات کے باوجود پارلیمان میں بیٹھنے اور جمہوری کردار ادا کرنے کے ان کے فیصلے نے ثابت کردیا کہ
وہ پاکستان کے کم عمر ترین ہی نہیں بلکہ دانا و دانشورترین سیاستدان بھی ہیں جو جمہوریت کے حترام اور ملک و قوم سے محبت کے فلسفہ پر گامزن ہیں مگر افسوس کہ سندھ میں حکومت سازی کے موقع پر انہیں گجراتی بولنے والی وہ کمیونٹی یاد ہی نہیں رہی جو کراچی میں پیپلزپارٹی کی سب سے بڑی طاقت ہے یا شاید کسی نے بلاول کو اس بارے میں بتانا گوارہ ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے حکومت سندھ میں گجراتی کمیونٹی کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی لیکن ہم بلاول بھٹو زرداری کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ان کے اجداد یعنی سر شاہنواز بھٹو کا تعلق جونا گڑھ سے تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو شہید و محترمہ بینظیر بھٹو شہید گجراتی بولنے والوں اور جونا گڑھ کمیونٹی سے بڑی محبت اور اس کی قدرو منزلت کے حامی تھے اور ہمیشہ اس کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلئے ایوان و اقتدار میں ان کی نمائندگی کو ملحوظ رکھا کرتے تھے اسلئے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے اسلاف کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے گجراتی بولنے والوں اور جونا گڑھ کمیونٹی کی نمائندگی کیلئے نواب آف جونا گڑھ ‘ ہزہائی نیس نواب محمد جہانگیر خانجی کو وزیراعلیٰ سندھ کامشیر بنانا چاہئے تاکہ ذاولفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے محبت کرنے اور پیپلز پارٹی کی طاقت بننے والی اس کمیونٹی کی نمائندگی اور ان کے مسائل کے حل کی جانب مثبت پیشرفت بھی ہوسکے
اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی جونا گڑھ کے حکمران خاندان کے چشم و چراغ نواب آف جونا گڑھ اسٹیٹ ‘ نواب ہزہائی نیس نواب محمد جہانگیر خانجی کے وراثتی تجربہ حکومت اور قابلیت سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی عوامی ساکھ واعتماد کو بحال و مستحکم کرنے میں کامیاب ہوسکیں !