منگل‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

آپ چند گھنٹوں کیلئے آئے ہیں اور پر آپ نے کہہ دیا کہ نظام فیل ہوگیا ہے، میں ان کو یہ بھی نہیں کہہ سکتاتھا کہ عدالتیں فیل ہوگئی ہیں، پرویز خٹک کی نجی ٹی وی سے گفتگو

datetime 10  مئی‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ میں نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے کہا کہ آپ چند گھنٹوں کیلئے آئے ہیں اور کچھ لوگوں نے آپ کو بریف کردیا ، اس پر آپ نے کہہ دیا کہ نظام فیل ہوگیا ہے، یہ آپ کی رائے ہے ،چیف جسٹس 2دن یہاں رہے ہیں ، واپس جاتے ہوئے انہوں نے سیکرٹری صحت ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تعریف کی،میں چیف جسٹس سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ کہ چلو عدالت چلتے ہیں اور وہاں پر اگر لوگ شکایت کرتے ہیں تو میں کیا کہوں گا

کہ عدالتیں فیل ہوگئی ہیں، یہ تو میں کہہ نہیں سکتا تھا، اگر آپ امریکہ بھی جائیں تو وہاں پر بھی آپ کو شکایات ملیں گی ، چیف جسٹس ثاقب نثار سے کہا کہ اگر آپ 5سال پہلے ہمارے ہسپتالوں کو دیکھتے اور اس کو آج کی حالت سے موازنہ کرتے تو آپ کو اندازہ ہوتا، صوبائی نیب کام کررہا ہے صرف اس کا ڈی جی چلا گیا ہے ، ہم نے قانون میں صرف یہ ترمیم کی کہ کسی کو بے عزت نہ کیا جائے، اگر کسی کے خلاف کیس بنتا ہے تو عدالت میں لے جائیں ، اگر عدالت گرفتاری کا حکم دیتی ہے تو ضرور گرفتارکریں ، کسی کی عزت نہ اچھالی جائے، ہمارا کام قانون سازی کرنا اور اس پر عملدرآمد کرانا تھا، ہم نے اسکولوں کے حالات بہتر کیئے، ہم یکساں نظام تعلیم پر کام کررہے ہیں، یہ معاملہ وفاق کے تعاون سے حل ہوتا ہے، ہم نے یونیورسٹیاں کیلئے نئی عمارتیں بنائیں، ہر بجٹ میں سینکڑوں اسکولوں کی منظوری آتی ہے، ہم نے 90کالجزبنائے ، ہم نے اربوں روپے پرانے اسپتالوں کی بہتری کیلئے لگائے، اس کے علاوہ نئے ہسپتال بھی بنائے ، ۔جمعرات کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 5سال قبل جب ہمیں اقتدار ملاتو صوبے میں دہشت گردی، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان عروج پر تھا، سرمایہ دار صوبہ چھوڑ کر جا چکے تھے، ان معاملات کے حل کیلئے قانون سازی کی ضرورت تھی جو ہم نے کی، قانون سازی کے بغیر راستہ نہیں کھل سکتا

، ہمارا کام قانون سازی کرنا اور اس پر عملدرآمد کرانا تھا، ہم نے اسکولوں کے حالات بہتر کیئے۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دور میں یونیورسٹیاں کرائے کی عمارتوں میں تھیں ہم نے ان یونیورسٹیاں کیلئے نئی عمارتیں بنائیں، ہر بجٹ میں سینکڑوں اسکولوں کی منظوری آتی ہے، ہم نے 90کالجز بنائے ہر کام شروع کیا، ہم یکساں نظام تعلیم پر کام کررہے ہیں، یہ معاملہ وفاق کے تعاون سے حل ہوتا ہے، سرکاری اسکولوں میں نظام وفاق کے تعاون سے حل ہوتا ہے، سرکاری اسکولوں میں نظام تعلیم اردو میں تھا

جسے ہم نے انگریزی میں کردیا ہے تاکہ بچے جب کالج میں جائیں تو ان کو دشواری نہ ہو۔پرویز خٹک نے کہا ہے کہ میں نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے کہا کہ یہ آپ کی رائے ہے کہ آپ چند گھنٹوں کیلئے آئے ہیں اور کچھ لوگوں نے آپ کو بریف کردیا ہے ، اس پر آپ نے کہہ دیا کہ نظام فیل ہوگیا ہے، چیف جسٹس 2دن یہاں رہے ہیں ، واپس جاتے ہوئے انہوں نے ہیلتھ سیکرٹری ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تعریف کی۔ میں چیف جسٹس سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ کہ چلو عدالت چلتے ہیں اور وہاں پر

اگر لوگ شکایت کرتے ہیں تو میں کیا کہوں گا کہ عدالتیں فیل ہوگئی ہیں، یہ تو میں کہہ نہیں سکتا تھا، اگر آپ امریکہ بھی جائیں تو وہاں پر بھی آپ کو شکایات ملیں گی۔ پرویز خٹک نے کہا کہ میں چیف جسٹس ثاقب نثار سے کہا کہ اگر آپ 5سال پہلے ہمارے اسپتالوں کو دیکھتے اور اس کو آج کی حالت سے موازنہ کرتے تو آپ کو اندازہ ہوتا، پہلے اسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں ہوتے تھے، حاضری کا کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ کے پی کے میں ساڑھے 3ہزار ڈاکٹرز تھے جب ہم نے حکومت سنبھالی تو

ہم نے 4ہزار ڈاکٹرز مزید بھرتی کیئے، اس کے علاوہ ٹیکنیشنز بھی بھرتی کیئے گئے ہیں۔ ہم نے اربوں روپے پرانے اسپتالوں کی بہتری کیلئے لگائے، اس کے علاوہ نئے اسپتال بھی بنائے ۔ ہم نے ڈاکٹروں کی حاضری کو یقینی بنایا، ڈاکٹر ز شام کو اسپتالوں میں موجود ہوتے ہیں، ہم نے اسپتالوں کو خودمختار کیا۔ وزیراعلیٰ کے پی کے نے کہا کہ ڈاکٹرز اپنے خلاف کاروائی پر عدالتوں سے جاکر سٹے لے لیتے ہیں جو کہ بڑا مسئلہ ہے، اس معاملے میں قانون کو ٹھیک کرنا پڑے گا، عدالت نے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے،

پارلیمنٹ کو اس معاملے ترمیم کرنی چاہیے ، میں اب تک 150ترامیم کرچکا ہوں ، تاکہ راستہ آسان ہو، میں جتنے بھی قانون بنائے سب کے خلاف لوگ عدالت میں چلے گئے، مگر ہم نے ایک کیس بھی نہیں ہارے۔ عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔میں کئی چیف جسٹس سے مل کران کو کہہ چکا ہوں کہ سٹے نہ دیا کریں، حکومت کی بھی سن لیا کریں۔انہوں نے کہا کہ صوبائی نیب کام کررہا ہے صرف نیب کا ڈی جی چلا گیا ہے، نیب کام کررہا ہے، ہم نے قانون میں صرف یہ ترمیم کی کہ کسی کو بے عزت نہ کیا جائے، اگر کسی کے خلاف کیس بنتا ہے تو عدالت میں لے جائیں ، اگر عدالت گرفتاری کا حکم دیتی ہے تو ضرور گرفتارکریں ، کسی کی عزت نہ اچھالی جائے، صوبائی اسمبلی نے ہائیکورٹ کو اختیار دے دیا کہ وہ ڈی جی نیب تعینات کرے، تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، عدالت نے ڈیڑھ سال کے بعد فیصلہ دبا کہ ہم نہیں کرسکتے۔



کالم



دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام


شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…