اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) رمضان المبارک میں زیادہ نقصانات والے علاقوں میں بھی سحری اور افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، بجلی چوروں کو سزا دینے کیلئے سیاسی جماعتیں تعاون کریں ،ڈسٹری بیوشن کی بہتری کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں ،2005ء سے 2012ء کے دوران ای او بی آئی کے فنڈز آٹھ اقساط میں بیت المال، موسمیاتی تبدیلی و دیگر وزارتوں اور محکموں کو منتقل کئے گئے ہیں،
90 فیصد رقم وصول کر کے واپس جمع کروا دی ہے باقی رقم بھی ادا ہو جائے گی۔بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر شیری رحمن اور دیگر ارکان کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں بجلی کی ہزاروں میگاواٹ کی کمی تھی اور احتجاجاً موٹر ویز اور سڑکیں بلاک ہو جاتی تھیں۔ فیکٹریوں میں 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، صنعتی شعبہ تباہ ہو گیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے دن رات کام کر کے صورتحال کو بہتر بنایا ہے۔ بجلی کے شعبہ میں رینٹل پاور جیسا کوئی سکینڈل اس حکومت کے دور میں سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ دو عشروں سے ٹرانسمیشن لائنوں کے لئے بھی کوئی کام نہیں ہوا تھا اور کوئی پن بجلی کا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا تھا لیکن ہم نے پاور پالیسی میں تبدیلی کر کے کرپشن کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں ساڑھے 13 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوئی ہے۔ 3500 میگاواٹ مزید بجلی بھی آئے گی۔ سی ون، سی ٹو اور سی تھری منصوبوں میں حالیہ دنوں میں خرابی سے ایک دو دن مسئلہ رہا لیکن اسے دور کرلیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے پاس رقم ہم نے دے دی لیکن ہمیں ڈسٹری بیوشن نظام کیلئے تین چار سال زمین حاصل کرنے میں لگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پانچ ماہ میں 220 کے وی کے پانچ نئے گرڈ اسٹیشن بنائے ہیں، چکدرہ اور مانسہرہ گرڈ اسٹیشن نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔
آج پیداوار 19300 میگاواٹ ہے جو طلب کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بجلی کے نقصانات کے حوالے سے کیٹیگریز بنا رکھی ہیں۔ کیٹیگری I- کے تحت 10 فیصد تک لاسز والے علاقوں میں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، آن لائن نظام موجود ہے جس کے ذریعے بجلی کی فراہمی کے حوالے سے تمام صورتحال خود دیکھی جا سکتی ہے جبکہ 98 فیصد علاقوں میں موبائل میٹر ریڈنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی سے 150 ارب روپے ٹیوب ویلوں کی مد میں وصول کرنے ہیں،
اس کے علاوہ آزاد کشمیر اور فاٹا سے بھی 70، 70 ارب روپے لینے ہیں لیکن ہم اکائیوں کی بجلی بند نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں 22، 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ سیاسی جماعتیں تعاون کریں تاکہ بجلی چوروں کو سزا دی جا سکے۔ انہیں سیاسی تحفظ نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 750 میگاواٹ کے ونڈ انرجی کے منصوبے سسٹم میں شامل ہو چکے ہیں اور 2018ء میں ہمارا ہدف 1500 میگاواٹ کا ہے۔ سولر منصوبوں سے 600 میگاواٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے جسے ہم 1000 میگاواٹ تک لے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 10 سے 20 فیصد تک لاسز والے فیڈرز پر 2 گھنٹے، 20 سے 30 فیصد لاسز والے فیڈرز پر دو گھنٹے، 30 سے 40 فیصد لاسز والے فیڈرز پر چار گھنٹے، 60 سے 80 فیصد لاسز والے فیڈرز پر 8 گھنٹے اور 80 سے زائد لاسز والے فیڈرز پر 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 9 ہزار فیڈرز کی مکمل تفصیلات ہم دینے کیلئے تیار ہیں۔ بجلی چوری پر ایف آئی آر بی درج کرائی جاتی ہے لیکن صوبائی حکومتوں سے تعاون نہیں ملتا۔ کئی علاقوں میں بجلی کی تنصیبات پر حملے بھی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2018ء تک 56 بجلی گھر لگ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کی بہتری کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں ،بلوچستان میں ڈسٹری بیوشن کا نظام بہتر بنایا ہے اس پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قوم سے جو وعدہ کیا تھا اس میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران سحری اور افطار کے اوقات میں زیادہ نقصانات والے علاقوں میں بھی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائیگی۔سینیٹر رضا ربانی کے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا ہے کہ 2005ء سے 2012ء کے دوران ای او بی آئی کے فنڈز آٹھ اقساط میں بیت المال،
موسمیاتی تبدیلی اور دیگر وزارتوں اور محکموں کو منتقل کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل ایک ارب 27 کروڑ 10 لاکھ روپے مختلف اداروں کو ای او بی آئی سے منتقل ہوئے تھے۔ ای او بی آئی کا فنڈ غریب مزدوروں کی پنشن کیلئے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 90 فیصد رقم وصول کر کے ای او بی آئی کے اکاؤنٹ میں واپس جمع کروا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2 کروڑ 19 لاکھ پچاس ہزار روپے باقی رہ گئے ہیں، اس پر بھی کام ہو رہا ہے ،ایوان کو یقین دلاتا ہوں یہ بھی ادا کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ 1996ء میں ای او بی آئی کے قانون میں تبدیلی کی گئی تھی۔
ماضی میں ای او بی آئی کے 43 ارب روپے سے غیر قانونی طور پر جائیدادیں خریدی گئیں اس میں سے علیم خان کیخلاف 10 ارب روپے کا ایک کیس ہائی کورٹ میں چل رہا ہے، اس ادارے کو کنگال کر دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ غریب مزدوروں کی پنشن 600 روپے ہی ہے اور اسے بڑھایا نہیں جا پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت ای او بی آئی صوبوں کو منتقل کر دیا گیا تھا لیکن صوبے اسے لینے کیلئے تیار نہیں ہیں اور ان کا موقف ہے کہ پہلے اربوں روپے کی لوٹی گئی رقم واپس حاصل کی جائے پھر اسے ہم لیں گے۔