اسلام آباد (این این آئی)موبائل فون کارڈ پر زائد وصولی کے کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ قانون بتایا جائے سیلز ٹیکس کیوں لیا جارہا ہے اور یہ پیسے ہتھیانے کا غیر قانونی طریقہ ہے۔ منگل کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے زائد وصولیوں کے از خود نوٹس کی سماعت کی جس کے سلسلے میں
عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل پاکستان نے موبائل فون کارڈ پر وصولیوں کیتفصیلات عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ری چارج پر 19.5 فیصد سیلز، 12.5 ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ٗ کمپنیاں 10 فیصد سروس چارج بھی وصول کرتی ہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ استحصال نہیں کہ ٹیکس ادا نہ کرنے پر ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے؟ یہ ٹیکس کیسے وصول کیا جارہا ہے؟جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وزیر خزانہ کو بلائیں، 14 کروڑ صارفین سے روزانہ ٹیکس کس کھاتے میں لیا جاتا ہے، ہمیں قانون بتائیں سیلز ٹیکس کیوں لیا جارہا ہے؟اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پیسے ہتھیانے کا یہ غیر قانونی طریقہ ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موبائل صارفین سے 42 فیصد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔سپریم کورٹ نے دنیا کے مختلف ممالک میں کال ریٹ کا تقابلی جائزہ چارٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ وفاق، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور صوبے ایک ہفتے میں تحریری جواب جمع کروائیں۔بعد ازاں موبائل کارڈ کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی گئی۔