صدیق اکبرؓ کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی زیر کمان مسلمانوں کا لشکر جب مختلف ممالک میں فتوحات اسلامی کے ڈنکے بجا اور اللہ تعالیٰ کی فتح و نصرت کے پرچم اٹھارہا تھا۔ اسی سلسلہ میں شہر حیرہ کے باغیوں کی شرارت و عہد شکنی کی خبر پاکر حضرت خالد بن ولیدؓ نے حیرہ کا رخ کیا۔ بہادران اسلام کی آمد کی خبر سنتے ہی اہل حیرہ اپنے قلعوں میں گھس کر قلعہ میں بند ہوگئے۔حضرت خالد بن ولیدؓ نے سب قلعوں کو چاروں
طرف سے محصور کرلیا اور کئی شب و روز تک قلعوں کو گھیرے رکھا اور لڑائی اس لئے نہ چھیڑی کہ شاید یہ لوگ راہ راست پر آجائیں لیکن جب ان کی طرف سے کوئی ایسی تحریک نہ دیکھی تو حضرت خالدؓ نے حملہ کرکے شہر کی آبادی اور اس کے اندر کنسیوں پر قبضہ کرلیا۔ قبضہ کرلینے کے بعد عمرو بن عبدالمسیح جو کہ نہایت بوڑھا پیر فانی تھا، اپنے قلعہ سے نکل آیا۔ مسلمانوں نے اسے حضرت خالدبن ولیدؓ کے سامنے پیش کیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عمرو بن المسیح کی طرف توجہ فرمائی اور دریافت کیا” تمہاری عمر کتنی ہے؟“عمرو نے کہا” سینکڑوں برس،“ بوڑھے کے ہمراہ ہی خادم کے پاس ایک زہر کی پڑیا نکلی۔ اس پر حضرت خالدؓ نے پوچھا” اسے ساتھ کیوں لائے ہو؟“اس نے کہا ”اس خیال سے کہ اگر تم نے میری قوم کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو میں اسے کھا کر مرجاﺅں اور اپنی قوم کی ذلت و تباہی نہ دیکھوں“حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر پڑیا سے زہر نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھا اور اس سے کہا” بے موت کوئی نہیں مرتا اگر موت کا وقت نہ آیا ہو تو زہر بھی اپنا کچھ اثر نہیں کرسکتا“ یہ کہہ کر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
بسم اللہ خیر السماءرب الارض والسماءالذی لایمرمع اسمہ داءالرحمن الرحیم
یہ کلمات ادا کرکے وہ زہر پھانک لیا۔ اس بوڑھے کافر نے یہ اعتقاد اور خدا پر اعتماد کا منظر دیکھا تو ششدر رہ گیا اور وہ تمام لوگ بھی حیران رہ گئے جو قلعوں سے نکل آئے تھے ۔ عمرو بن المسیح کی زبان سے تو یہ کلمہ بے اختیا رنکل گیا کہ جب تک تمہاری شان کا ایک شخص بھی تم میں موجود ہے تم اپنے مقصد میں ناکام نہیں رہ سکتے ۔ (تاریخی یادگار واقعات،از محمد اسحاق ملتانی)