اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے ٗ خدا کے واسطے انصاف کی فراہمی کیلئے جو کرسکتے ہیں کر گزریں، اگر عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائے گی ٗآئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ٗ بھول جائیں کہ یہاں کوئی سازش ہورہی ہے ٗآئین کی حفاظت ہماری ذمہ اری ہے ٗ انشا اللہ اس سے پہلو تہی نہیں کریں گے اور عدلیہ کی عزت
و تکریم کیلئے کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے ٗجج صاحبان انصاف کے منصب کو اپنی ملازمت سمجھیں گے تو پھر کام نہیں کر سکیں گے ٗانصاف وہ ہے جو نظر آئے ٗانصاف فراہم کرنے کیلئے کوئی چیز ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیے ٗمجھے ٹارگٹ دل اور جذبے سے چاہئیں ٗ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کیلئے بے خوف،بے خطر اور بے مصلحت جج کی ضرورت ہے ٗجو اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہوں ٗہدف کو ذہن میں رکھ کر کام نہیں ہوسکتا ٗاس کیلئے جذبے اور لگن کی ضرورت ہے۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ کی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ انصاف وہ ہے جو نظر آئے ٗانصاف میں کسی کسم کا امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انصاف فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے ٗ انصاف فراہم کرنے کیلئے کوئی چیز ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیے ٗمجھے ٹارگٹ دل اور جذبے سے چاہئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں ریاستوں کا اہم ستون ہوتی ہیں اگر عدالتیں اپنی کار کردگی نہیں دکھائیں گی تو ریاست اپنا توازن کھو بیٹھے گی۔چیف جسٹس نے کہاکہ کہا گیا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو مفلوج کردیا تاہم وفاقی حکومت کی وجہ سے یہ نہیں پتہ ہم کتنے مفلوج ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ
ملک میں عظیم لیڈر اور عظیم منصف آجائیں تو ملک کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ قیامت کے دن ایک عادل قاضی کو اللہ کی رحمت کی چھاؤں نصیب ہوگی ٗیہ بڑا جید کام ہے لہذا اپنی ذمے داریاں نوکری سمجھ کر نہیں فرض سمجھ کر ادا کریں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میرے پاس کیسز آرہے ہیں جس میں ایک ایک سال بعد فیصلے لکھے گئے ٗ میں تھک گیا ہوں کہہ کہہ کر ایک مہینے میں فیصلہ دیں۔ ججز کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ایک سال کیلئے آپ اپنا وقت قوم کو تحفے میں دے دیں اور ایک سال بعد دیکھیے گا کہ کیا تبدیلی آئی ہے۔انہوں نے کہاکہ جج صاحبان کو چھوٹے موٹے کام نہیں دئیے گئے بلکہ کہ وائٹ کالر کرائم والے بڑے بڑے مگرمچھوں جن کو پکڑنے کیلئے کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا، کا احتساب کرنے کا کام سونپا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے ٗ خدا کے واسطے انصاف کی فراہمی کیلئے جو کرسکتے ہیں کر گزریں، اگر عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائے گی۔