ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کراچی،نقیب قتل کیس میں گرفتار افرادکو واقعے کے 2 چشم دید گواہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو شناخت کرلیا

datetime 31  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو واقعے کے 2 چشم دید گواہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو شناخت کرلیا۔نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کیس ملوث 6 پولیس اہلکاروں کو 27 جنوری کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سب انسپکٹر محمد یاسین، اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) فرحت حسین، اے ایس آئی اللہ یار، ہیڈ کانسٹیبل خضرت حیات، ہیڈ کانسٹیبل محمد اقبال اور کانسٹیبل ارشد علی شامل ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں محمد اقبال، ارشد علی اور اللہ یار کو پیش کیا گیا، واقعے کے 2 چشم دید گواہ قاسم اور حضرت علی بھی پیش ہوئے۔عدالت کے روبرو تینوں پولیس اہلکاروں کو الگ الگ شناخت پریڈ کے لیے 9 ڈمیز کے ہمراہ پیش کیا گیا، فاضل مجسٹریٹ کے روبرو پولیس نے سب سے پہلے کانسٹیبل محمد اقبال کو پیش کیا۔چشم دید گواہوں نے کانسٹیبل محمد اقبال کو شناخت کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پولیس اہلکار 3 جنوری کو اس موبائل کے ہمراہ سادہ لباس میں موجود تھا جس میں انہیں حراست میں لیا گیا تھا، فاضل مجسٹریٹ نے ملزم پولیس اہلکار سے استفسار کیا کہ آپ کو شناخت پریڈ پر کوئی اعتراض تو نہیں۔ملزم نے عدالتی استفسار پر جواب دیا کہ انہیں شناخت پریڈ پر اعتراض تو نہیں تاہم وہ اس دن جنرل ڈیوٹی پر تھے۔پہلے ملزم کی شناخت پریڈ مکمل ہونے پر پولیس نے مقدمے میں گرفتار دوسرے پولیس اہلکار ہیڈکانسٹیبل ارشد علی کو فاضل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا، دونوں عینی شاہدین نے ملزم ارشد علی کو بھی شناخت کرتے ہوئے بیان دیا کہ ملزم اس موبائل میں موجود تھا جس میں ہمیں ہوٹل سے سچل چوکی منتقل کیا گیا۔دوران کارروائی ملزم پولیس اہلکار نے اعتراض اٹھایا کہ تھانے سے لاتے وقت گواہوں کو میرے کپڑے دکھائے گئے، ملزم کے اعتراض پر فاضل مجسٹریٹ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کپڑے تبدیل کرنا چاہتے ہیں، عدالتی احکامات پر ملزم کے کپڑے بھی تبدیل کرائے گئے۔

دوسرے ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل ہونے پر تیسرے ملزم اے ایس آئی اللہ یار کو شناخت پریڈ کے لیے پیش کیا گیا، فاضل مجسٹریٹ کے روبرو دونوں عینی شاہدین نے ملزم اللہ یار کو شناخت کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ملزم نے 3 جنوری کو سادہ لباس اہلکاروں کے ہمراہ انہیں شیر آغا ہوٹل سے حراست میں لیا تھا۔فاضل مجسٹریٹ کے روبرو ملزم اللہ یار نے مؤقف اپنایا کہ گواہوں کی شناخت پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تاہم گواہوں کی جانب سے دیا گیا بیان درست نہیں۔فاضل مجسٹریٹ کے روبرو شناخت پریڈ مکمل ہونے پر تینوں گرفتار پولیس اہلکاروں کو تھانے منتقل کیا گیا۔واضح رہے کہ معطل ایس ایس پی راؤ انوار نے 13 جنوری کے روز شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کی حدود میں پولیس مقابلے دوران دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا اور نوجوان نقیب اللہ کو بھی دہشت گرد بتایا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے نقیب اللہ کی جعلی مقابلے میں ہلاکت کا نوٹس لے رکھا ہے اور راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ کو دی گئی مہلت بھی ختم ہوگئی ہے لیکن پولیس ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کرسکی ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…