اسلام آباد (مانیٹر نگ ڈیسک) حضور ہمیں پڑھانے میں مصروف تھے کہ اسی دوران اچانک ان کا چہرہ سرخ ہو گیا، اس کیفیت میں انہوں نے اپنا دست مبارک اپنی چادر میں چھپا لیا، جب کچھ دیر میں دست مبارک چادر سے باہر نکالا تو ہم نے دیکھا کہ ان کی آستین سے پانی ٹپک رہا تھا اور ہاتھ پانی سے بھیگا ہوا ہے،
اس وقت موجود طلباء کہتے ہیں کہ اس وقت ان کے چہرے پر بڑا جاہ و جلال تھا اور طلباء کہتے ہیں کہ ہم پر ہیبت طاری تھی اس لیے ان سے پوچھ بھی نہ سکے لیکن طلباء نے وہ دن، تاریخ اور وقت اپنے پاس لکھ لیا۔ کہتے ہیں کہ کوئی دو ماہ کے بعد کچھ کاروباری لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ناظر و تحائف پیش کیے، طلباء نے کہا کہ حضور نے ہمارے آگاہ ہونے کے لیے ان تاجروں سے کیفیت پوچھی، جس پر انہوں نے بتایا کہ یہاں سے دو مہینے کا راستہ تھا، جب ہمارا جہاز پانی کے اندر تھا کہ اچانک طوفان نے ہمیں گھیر لیا، بڑی تیز ہوائیں چلنے لگیں، شدید طوفان تھا، ہمارا جہاز ڈوبنے لگا، گھبراہٹ میں جب کچھ نہ بن پایا تو یا شیخ عبدالقادر جیلانی المدد کا نعرہ لگایا، اُسی وقت دریا میں سے ایک ہاتھ سامنے آیا، جس نے ہمارے ہاتھ کو کنارے لگا دیا، جب طالب علموں نے وہ تاریخ دن اور ٹائم ملایا تو یہ وہی وقت تھا جب غوث پاک نے اپنے ہجرے میں بیٹھ کر یہ کرامت دکھائی تھی، بہرحال میرے پیارے اسلامی بھائیو اللہ والوں کی کرامتوں کی کیا ہی بات ہے، اولیاء کرام کی کرامتیں برحق ہیں، ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے یہ کیسے ممکن ہے، بے شک کرامتوں کا ذکر تو قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح حضرت عاصم بن برخی عربیؓ نے کس طرح پلک جھپکتے میں تخت بلقیس کو حاضر کر دیا تھا۔