اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف اسلامی اسکالر اور مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے بیت اللہ شریف کے پاس رہنا اور دور رہنا فرق نہیں ڈالتا۔ ایک شخص بیت اللہ کے پاس رہتے ملاوٹ کرتا ہے جبکہ ایک 5ہزار کلو میٹر دور رہ کر ملاوٹ کرتے باز نہیں آرہا، قریب یا دور رہنے سے بات نہیں بنتی بلکہ سوچ میں فرق لانے کی ضرورت ہے۔
مولانا نے اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ پرانی بات ہےعمارتیں قریب ہوا کرتی تھیں، میں حرم سے نکلا بخاریوں جانے کیلئے وہاں بخاری بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ سڑک کنارے ایک ٹیکسی مل گئی ، سفر شروع ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور عرب تھا وہ ہر آگے آجانے والے کو گندی گندی گالیاں دیتا جس پر مجھے حیرت ہوئی ۔ حج کا موسم تھا اور ان دنوں بہت رش ہوتا ہے۔ ـٹیکسی ڈرائیور کو میرے حلئیے سے اطمینان تھا کہ یہ عربی نہیں جانتا ہو گاجبکہ مجھے سب پتہ چل رہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے راہگیروں کے ساتھ روئیے پر بہت تکلیف ہوئی کہ یہ کیا کر رہا ہے۔ جب وہ ٹیکسی ڈرائیور حد سے تجاوز کرنے لگا تو میں نے سوچا چلو اس سے تھوڑی بات کرتا ہوں۔ میں نے اسے پہلے سلام کیا اور عربی زبان میں دو چارلفظ بولے تو ایک دم وہ ذرا سنبھل گیااور چپ ہو گیا۔ میں نے اس سے تھوڑی بات کی تو وہ ایک دم بولا کہ مجھ سے دین کی بات نہ کرو۔ مجھے تو دس سال ہو گئے ہیں میں نے بیت اللہ کی شکل نہیں دیکھی۔ اس کی اس بات پر میں سمجھا کہ یہ بدو ہے جو کہیں اور سے آکر یہاں محنت مزدوری کر رہا ہے۔میں نے اپنی سوچ کی تصدیق کیلئے اس سے پوچھا کہ کیا تم کہیں باہر سے آئے ہو سیزن کمانے کیلئے ۔ تو اس نے کہا کہ نہیں میں یہیں مکہ میں رہتا ہوں۔ میں نے استفسار کیا کہ مکہ میں رہتے ہو
اور دس سال سےبیت اللہ نہیں دیکھا تو اس نے کہا کہ ہاں دس سال سے بیت اللہ نہیں دیکھا۔مولانا کہتے ہیں کہ اس کے اس جواب کے بعد مجھے چپ لگ گئی اور گاڑی میں بالکل سناٹا چھا گیا۔پھر کچھ دیر بعد وہ بولا کہ کیوں پریشان ہو گئے ہو، پریشان نہ ہو، یہاں مکہ میں بڑی دنیا ایسی پڑی ہے جنہوں نے کئی کئی سال ہو گئے ہیں بیت اللہ کی شکل نہیں دیکھی۔مولانا طار ق جمیل نے واقعہ سنانے کے بعد کہا کہ بندہ جس سمت چلتا ہے اسے اسی طرف کی چیزیں سوجھتی ہیںاور جب بندہ کسی طرف سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے تو ادھر سے بھی تمام دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔