”یار تم نے مقصود صاحب سے قرض لیا ہے اور مجھے بتایا بھی نہیں اور انہیں مقررہ تاریخ تک واپس بھی نہیں کیا؟” میرے والد صاحب نے پرسوں رات کے کھانے کے فوراً بعد مجھ سے سوال کر لیا۔ ’’ مجھے ارجنٹ ضرورت تھی اس لئے میں نے ان سے لے لئے۔ اس میں بتانے اور نہ بتانے کی کیا بات ہے؟؟؟؟ ‘‘ میں نے الٹا سوال کیا والد صاحب سے۔ ان کو مجھ سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ پہلے والد صاحب نے مجھے حیرت
سے عینک اتار کر دیکھا، گویا وہ یقین کر رہے ہوں کہ کیا میں اپنے بیٹے سے ہی بات کر رہا ہوں یا کسی اور سے۔۔ ’’بیٹا دو مہینے ہو گئے ہیں تجھے ان سے پیسے لئے۔ آج نماز کے بعد انہوں نے مجھ سے پیسوں کا پوچھا اور کہا کہ آپ کے بیٹے نے آپ کا نام لیا تھا اس لئے میں نے فوری دے دیئے‘‘ والد صاحب نے میرے کاٹ دار لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’چلو ٹھیک ہے پیسے میں نے لئے تھے میں خود ہے دے دوں گا، آپ کو میرے معاملات میں دخل کی ضرورت نہیں۔ ‘ میں نے دوٹوک جواب دیا۔ پاس بیٹھے بڑے بھائی نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا: تمیز سے بات کرو۔ پاگل ہو؟؟ ’’تم اپنا کام کرو۔‘‘ یہ الفاظ ابھی پوری طرح مکمل نہ ہوئے تھے کہ اس نے چارپائی سے گھسیٹا اور دو تین ہاتھ جڑ دئیے۔ والد صاحب نے فوری ہم میں معاملہ ٹھنڈا کیا اور خود دل پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی دیر بعد ان کی طبیعت سنبھلی مگر کچھ بولے نہیں۔ صبح میں بنا ملے بتائے ناشتہ کیے، گھر سے کام پر نکل گیا۔ کام کے دوران والد صاحب کی کال آئی: ’’پتر۔ جلدی گھر آ جانا۔ شام کو کام سے جانا ہے کہیں‘‘ میں نے جواب ’’اچھا‘‘ میں دے کر کال کاٹی اور فون بند کر دیا۔ کام سے سیدھا دوست کے گھر پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ تین گھنٹوں میں ہی وہ دوست مجھ سے بیزار ہو گیا ہے مگر میرا ارادہ آج گھر جانے کا نہیں تھا۔ رات 9 بجے میرا بڑا بھائی مجھے ڈھونڈتا ہوا دوست کے گھر تک پہنچ گیا۔
کچھ دیر چپ بیٹھنے کے بعد مجھے کہنے لگا: ’’ذرا سوچو تم نے اس شخص کو کہا میری باتوں میں نہ آیا کرو جس نے تیرے پیدا ہونے پر مٹھائی بانٹی اور نوافل پڑھے، اس شخص کے آگے اونچا بولے جس نے تمہیں اپنی زبان دے کر تجھے بولنا سیکھایا۔ تم نے کل اس شخص کی آنکھوں کو رلایا جس نے تمہاری ہنسی کے لئے دن رات اپنا خون جگر جلایا۔ تمہاری جوانی اور خوشحالی کے لئے وہ شخص وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا۔
پتہ ہے پچھلے سال تم بیمار ہوئے تو ڈاکٹر نے کہا تھا ’’تم نہیں بچ سکتے‘‘ یہ سنتے ہی پہلا ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس شخص کو۔۔۔ تمہاری فکر کی وجہ سے۔۔‘‘ میرا بڑا بھائی قاسم بول رہا تھااور میں سن رہا تھا۔ ’’آخر اس نے پیار بھرے انداز میں کہا چلو اٹھو گھر چلو۔ ابو جی انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ میں بھائی کے ساتھ بائیک پر سوار ہو گیا چپ کر کے۔ رات 1 بجےگاؤں کے باہر برساتی نالے کے پل پر موٹا لحاف اوڑھے، ہاتھ میں عصا لئے کوئی بیٹھا نظر آیا، جو موٹر سائیکل کی لائٹ دیکھتے ہی تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ قریب جا کر بھائی نے موٹر سائیکل روک لی۔
وہ میرے والد صاحب تھے۔ والد صاحب نے دیکھتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔ جھریوں بھرا چہرہ اور بدن کی کپکپی نے چیخ چیخ کر کہا: ’’دیکھو!!!!! جو شخص تمام زندگی کے نشیب و فراز کو اولاد کے لئے فتح کر آیا، آج اولاد کے سامنے ہار گیا ہے‘‘ مجھے یہ سن کر ایسی سخت شرمندگی ہوئی کہ یہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں اتر جاؤں جب میرے والد نے یہ کہا: ’’پتر !!! میں نے ہمیشہ تجھے اپنے دوستوں کی جگہ رکھا اور سمجھا ہے۔ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو یہ لے ہاتھ جوڑتا ہوں، اچھے دوستوں کی طرح معاف کر دے!!!!‘‘