ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے 1990ء میں قائداعظم یونیورسٹی سے میتھ میٹکس میں ایم ایس سی کیا اور گولڈ میڈل کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی‘ 1992ء میں انہوں نے ایم فل کر لیا‘ یہ ٹاپر تھے لہٰذا حکومت نے انہیں سکالر شپ پر پی ایچ ڈی کے لیے آسٹریلیا بھیج دیا‘ یہ کینبرا میں نیشنل یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی تھے اور پی ایچ ڈی بھی کر رہے تھے‘ 1998ء میں پی ایچ ڈی ہو گئی جس کے بعد ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ آسٹریلیا میں سیٹل ہو جاتے‘ ڈالرز کماتے اور بچے آسٹریلین نیشنل ہو کر فائیو سٹار زندگی گزارتے یا پھر یہ پاکستان واپس آ کر نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم بانٹتے‘ ڈاکٹر صاحب نے دوسرا راستہ منتخب کیا‘ اب سوال یہ ہے ڈاکٹر صاحب نے یہ راستہ کیوں چنا؟ اس کی وجہ بہت دل چسپ ہے‘ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں شوکت عزیز نے انہیں سنگا پور کی ترقی کی وجہ بتائی تھی‘ شوکت عزیز سنگاپور میں سٹی بینک کے کنٹری ہیڈ رہے تھے‘
یہ سنگا پور کو اچھی طرح سمجھتے تھے‘ انہوں نے جنرل مشرف کو بتایا لی کو آن یو نے وزیراعظم بننے کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں کام کرنے والے سنگاپورین سی ای اوز اور پروفیسرز کو وہ تنخواہیں اور مراعات آفر کر دیں جو یہ دوسرے ملکوں سے لے رہے تھے‘ مثلاًفرض کریں ایک سنگا پورین پروفیسر یا پرائیویٹ کمپنی کا ملازم امریکا میں ماہانہ دس ہزار ڈالر لے رہا ہے‘ وزیراعظم نے اسے پیش کش کر دی تم سنگاپور واپس آئو اور یہ تنخواہ ہم سے لے لو‘ یہ بڑی زبردست آفر تھی کیوں کہ اوورسیز سنگاپورینز کی آدھی تنخواہیں ٹیکسوں اور مہنگی رہائش گاہوں میں ضائع ہو جاتی تھیں اور وہ بمشکل دس فیصد رقم بچا پاتے تھے‘ سنگاپور میں ان کے اپنے مکان تھے اور ٹیکس بھی امریکا کے مقابلے میں کم تھے لہٰذا یہ بڑی آسانی سے تنخواہ کا ساٹھ فیصد بچا سکتے تھے چناں چہ اس آفر کے بعد 80 فیصد پڑھے لکھے سنگاپورین واپس آ گئے‘ حکومت نے سی ای اوز کو بڑی تنخواہیں دے کر بیوروکریسی میں شامل کر لیا جب کہ پروفیسرز کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے کی ذمہ داری دے دی اور ان لوگوں نے دس سال میں سنگاپور کو اکنامک پاور بنا دیا‘ شوکت عزیز نے جنرل مشرف کو بتایا سنگاپور کے بعد ملائیشیا اور چین نے بھی اسی فارمولے کے تحت ترقی کی لہٰذا ہم اگر ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں بھی یہ کرنا ہو گا‘
ہم اگر دنیا بھر سے اپنے ٹیلنٹڈ پاکستانی واپس لے آتے ہیں تو ہم ترقی کی سڑک پر آجائیں گے لیکن اس کے لیے ہمیں انہیں سپیشل پے سکیل دینا ہوں گے‘ جنرل پرویز مشرف راضی ہو گئے اور انہوں نے 15 مارچ 2002ء کو دنیا بھر میں موجود پاکستانی پروفیسرز کو واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس بنا دی‘ پاکستان کے مشہور بزنس مین اور لمز یونیورسٹی کے بانی سید بابرعلی اس ٹاسک فورس کے چیئرمین اور آغا خان یونیورسٹی کے صدر شمس قاسم لاکھا کوچیئرمین تھے جب کہ ممبرز میں اس وقت کے اعلیٰ پروفیسرز اور وائس چانسلرز تھے‘ ٹاسک فورس نے طویل غور وخوض کے بعد فیصلہ کیا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائیرایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کر دیا جائے اور یونیورسٹیوں میں بیسک پے سکیل (بی پی ایس) کے ساتھ ساتھ ٹینور ٹریک سسٹم (ٹی ٹی ایس) متعارف کرا دیا جائے‘ ٹی ٹی ایس عام روایتی سسٹم سے بالکل مختلف ہو‘ یہ صرف بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسروں اور دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو آفر کیا جائے‘ انہیں ڈالرز میں تنخواہ دی جائے اور ہر سال پرائیویٹ کمپنیوں کی طرح ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے‘ فیصلہ ہوا بیرون ملک کام کرنے والے پروفیسرز کو ماہانہ تین ہزار ڈالرز‘ ایسوسی ایٹ پروفیسرز کو دو ہزار ڈالرز اور اسسٹنٹ پروفیسر کو 13 سو33 ڈالرز کے برابر تنخواہیں دے دی جائیں تاکہ یہ یورپی ملکوں کے برابر تنخواہ پاکستان میں لے سکیں‘ ٹاسک فورس کی سفارشات پر عملدرآمد شروع ہو گیااور2007ء تک چار ہزار پروفیسرز پاکستان واپس آگئے اور انہوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کر دیا‘ ان میں سے آدھے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سکالر شپس پر باہر پڑھنے گئے تھے اور یہ اس آفر کے بعد انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کو لات مار کر واپس آ گئے‘ پروفیسر آصف علی بھی ان میں شامل تھے‘ یہ بھی واپس آکر قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔
پاکستان کے ان چار ہزار پروفیسرز نے10 ہزار سٹوڈنٹس کو پی ایچ ڈی کرائی‘ اس وقت بھی 15 ہزار طالب علم پی ایچ ڈی کے لیے ان کے ساتھ وابستہ ہیں جب کہ ان کے 8 ہزار سٹوڈنٹس ان کی سفارش پر دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں‘ یہ پراجیکٹ جب شروع ہوا تو اس وقت قائداعظم یونیورسٹی کے نارمل اسسٹنٹ پروفیسر (بی پی ایس) کی تنخواہ 43105 روپے سے شروع ہوتی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں ٹی ٹی ایس اسسٹنٹ پروفیسر اس سے 86فیصد زیادہ یعنی 80 ہزار روپے تنخواہ پر اپنا کیریئر شروع کرتا تھا‘ حکومت پچھلے سترہ برسوں میں بی پی ایس کی تنخواہوں میں سالانہ 11فیصد اضافہ کرتی رہی جب کہ ٹی ٹی ایس کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا چناں چہ آج اگر کوئی اسسٹنٹ پروفیسر امریکا‘ برطانیہ یا آسٹریلیا چھوڑ کر پاکستان آئے گا تو اسے ایک لاکھ 75ہزار روپے تنخواہ ملے گی جب کہ بی پی ایس دو لاکھ 52ہزار سات سو 31 روپے حاصل کرے گا‘ اسی طرح 2007ء میں لوکل ایسوسی ایٹ پروفیسر کی پہلی تنخواہ 54ہزار33 روپے جب کہ بیرون ملک سے آنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر کو ایک لاکھ 20 ہزار تنخواہ دی جاتی تھی‘ یہ نارمل سے ایک سو 22فیصد زیادہ تھی لیکن آج 17 سال بعد نارمل ایسوسی ایٹ پروفیسر کی ابتدائی تنخواہ تین لاکھ 21 ہزار چار سو 55 روپے اور ٹی ٹی ایس کی دو لاکھ 63ہزار 250 روپے ہے گویا 122فیصد اضافی تنخواہ 17 برسوں میں کم ہو کر 18فیصد منفی ہو چکی ہے‘اسی طرح 2007ء میں قائداعظم یونیورسٹی کے نارمل پروفیسروں کی ابتدائی تنخواہ72 ہزار ایک سو 27 روپے اور ٹی ٹی ایس پروفیسر کی تنخواہیں اس سے 150فیصد زیادہ یعنی ایک لاکھ 80 ہزار روپے تھی‘ آج 17برس بعد لوکل پروفیسر کی ابتدائی تنخواہ چار لاکھ پانچ ہزار دو سو بانوے روپے جب کہ ٹی ٹی ایس پروفیسر کی تین لاکھ 94 ہزار875 روپے ہے گویا 150فیصد زیادہ تنخواہ کا پروفیسر اب منفی تین فیصد تنخواہ لے رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے یہ فرق کیوں اور کیسے آ گیا؟ سیدھی بات ہے بی پی ایس کی تنخواہوں میں ہر سال گیارہ فیصد اضافہ ہوتا رہا اور ان کی تنخواہیں بڑھتی رہیں جب کہ بیرونی یونیورسٹیاں اور فائیو سٹار شہریت چھوڑ کر آنے والے پروفیسرز کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا اور یوں یہ روز بروز نیچے سے نیچے کھسکتے چلے گئے‘ حکومت آج بھی اربوں روپے سکالرشپس دے کر طالب علموں کو بیرونی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کرا رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ امریکا‘ یورپ اور آسٹریلیا سے تین سے پانچ ہزار ڈالر کی نوکری چھوڑ کر اب پاکستان میں چھ سو ڈالر کی نوکری شروع کریں گے اور وہ بھی اس عالم میں کہ لوکل اسسٹنٹ پروفیسر ان سے اٹھارہ فیصد زیادہ تنخواہ لے رہے ہوں؟ ٹی ٹی ایس پروفیسرز نے جون 2024ء میں اس ظلم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی اور 12 ستمبر 2025ء کو عدالت نے حکم دیا یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں پیش کیاجائے اور فوری طور پر ٹی ٹی ایس کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کیا جائے‘ حکومت اب اگر اس فیصلے پر عمل کرتی ہے تو اسے بھاری رقم دینا پڑے گی لہٰذا میری اطلاع کے مطابق یہ اب سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور یہ معاملہ وہاں جا کر لٹک جائے گا اور اس کا سیدھا سادا ملک کو نقصان ہو گا‘ میرا مشورہ ہے احسن قبال منصوبہ بندی کے وزیر ہیں‘ یہ خود بھی فارن کوالی فائیڈ پروفیسر ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں مینجمنٹ کی بے تحاشا صلاحیت دے رکھی ہے‘ وزیراعظم اگر انہیں اجازت دیں تو یہ دس منٹ میں یہ معاملہ نبٹا سکتے ہیں‘
یہ فوری طور پر ٹی ٹی ایس سے رابطہ کر کے ان سے ماضی کے انکریمنٹس معاف کرا سکتے ہیں یا یہ انہیں پلاٹس یا دیگر مراعات میں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں‘ یہ ان کی تنخواہیں نارمل ٹاسک فورس کی تجاویز کے مطابق کر سکتے ہیں یوں اسسٹنٹ پروفیسر کی تنخواہ چار لاکھ 71 ہزار‘ ایسوسی ایٹ پروفیسر کی تنخواہ سات لاکھ سات ہزار چار سو 11روپے اور فل پروفیسر کی 10 لاکھ 61 ہزار ایک سو 17 روپے ہو جائے گی‘ اس کے دو فائدے ہوں گے‘ دنیا بھر میں موجود نیا پاکستانی ٹیلنٹ دوبارہ پاکستان آنے لگے گا اور وہ پروفیسر جنہوں نے ماضی میں حکومت پر اعتماد کر کے غلطی کی تھی وہ بھی مطمئن ہو جائیں گے‘یہ فارمولہ اگر سنگاپور‘ ملائیشیا اور چین میں کام یاب ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ اور آخری بات سابق حکومتوں کے سارے پراجیکٹس غلط نہیں ہوتے اگر میاں نواز شریف نے پیپلزپارٹی کے آئی پی پیز اور بے نظیر انکم سپورٹ قبول کرلیا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی موٹروے کو تسلیم کر لیا تھا تو آپ بھی جنرل مشرف کے اس نوعیت کے اچھے اقدامات کو مان لیں‘اس سے ہمارا دائروں کا سفر کم ہو جائے گا ورنہ ہم اسی طرح پیچھے دوڑتے چلے جائیں گے۔