وہ ايک کھلنڈرا سا لڑکا تھا اور دوسرے بہت سے عام لڑکوں کی طرح اس کا شوق بھی لڑکیوں سے دوستی کرنا، ہلہ گلہ کرنا اور موج مستی تھا۔ لڑکوں کی طرح اسے بھی باہر جانے کا جنون تھا کسی بھی طريقے سے وہ کسی باہر کے ملک ميں سیٹل ہونا چاہتا تھا۔ گھريلو حالات بہت اچھے نہيں تو برے بھی نہيں تھے ۔ 2 بہنوں کا بھائی تھا اور کافی لاڈلا بھی تھا ۔ نام تو اس کا رشيد تھا مگر سب اسے رشی کہتے تھے ۔
پڑھائی ميں کافی تیز تھا اوراس وقت BCS کے آخری سال ميں تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ اب فارغ ہو کر باہر جانے کی کوشش کرے گا۔ مذہب سے اتنا تعلق تھا کہ جمہ اور عیدين کی نمازپڑھ ليا کرتا تھا ۔ زندگی مزے سے گزر رہی تھی کہ اس سکون بھری زندگی مىں پھوپھو نے ہلچل مچا دی جو جرمنی ميں رہتی تھيں اوراپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان آ رہی تھيں ۔ اڑتے اڑتے اسے خبر مل چکی تھی کہ وہ بيٹی کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہی ہيں ۔ بس پھر کیا تھا اس کی تو تمام حسيات جاگ گئيں ۔ اٹھتے بیٹھتے اسے يہ خيال آنے لگا کہ مجھے قسمت آزمائی کرنی چاہیے شايد قرعہ میرے نام ہی نکل آۓ ۔ خدا خدا کر کے پھوپھو اور ان کی بیٹی ملیحہ آ گئيں ۔ مليحہ تو سادی سی ، خاموش لڑکی تھی ۔ زيادہ تر کمرے میں ہی رہتی ۔ کسی بات کا جواب بھی دينا ہوتا تو کم سے کم الفاظ استعمال کرتی ۔ اس کی اردو بہت مزيدار تھی جرمن لہجے میں اردو بولتی تورشی تو واری واری جاتا ۔ وہ تو دل و جان سے اس پر فدا ہو چکا تھا ۔ پھوپھو کو شايد اس کا ندازہ ہو چکا تھا اور انہیں کوئی اعتراض بھی نہ تھا ۔ لو جی چٹ منگنی ، پٹ بیاہ والا کام ہوا اور ايک ماہ کے اندر اندر شادی ہو گئی ۔ دعوتوں اورميل ملاقاتوں ميں دن گزرنے کا پتا ہی نہيں چلا اورايک دوسرے کے مزاج سے بھی بہت زيادہ شناسائی نہ ہو سکی۔ چونکہ مليحہ کی یونیورسٹی کھل چکی تھی اس ليے شادی کے دو ہفتے بعد ہی اسے واپس لوٹ جانا پڑا ۔ رشی اداس تو ہوا ليکن يہ تسلی بھی تھی کہ کچھ عرصے بعد ہی وہ بھی وہاں چلا جاۓ گا ۔ اسے اپنی قسمت پر ناز تھا ۔
باہر جانے کی خوائش بھی پوری ہو جاۓ گی اور من پسند لڑکی بھی مل گئی ۔ وہ تو دوستوں ميں اٹھلاتا پھرتا ۔ کئئی ايک سے وعدہ بھی کر بيٹھا کہ وہاں سیٹل ہو کر وہ انہىں بھی وہاں بلا لے گا ۔ آخر رخصتی کا دن بھی آن پہنچا يعنی جس دن اسے جرمنی جانا تھا ۔ بيوی کی محبت اور مستقل کے حسين خواب سجاۓ وہ جرمنی ايئر پورٹ پر اترا ۔ ٹرمینل سے نکلا تو پھوپھو اور پھوپھا سامنے کھڑے تھے مگر وہ دشمن جان ان کے ساتھ نہ تھی۔
اس نے سوچا شايد پارکنگ ميں ہو گی ۔ ان دونوں سے ملا اور وہ سب پارکنگ کی طرف چل پڑے ، وہ تو گاڑی ميں بھی نہيں تھی ۔ اب رشی حيران ہوا۔ پھوپھو سمجھ گئيں ، کہنے لگيں کہ يونيورسٹی ميں اس کا کوئی بہت اہم کام تھا اس ليے نہيں آ سکی ۔ رشی دل ميں حیران تو ہوا کہ کيا آج اس سے بھی زيادہ کوئی ضروری کام ہو سکتا ہے مگر اچھا کہہ کر خاموش ہو گيا ۔ اور سارا راستہ پچھلوں کے حال احوال پوچھتے بتاتے کٹ گيا ۔
گھر پہنچنے کے کچھ دير بعد مليحہ بھی آ گئی ۔ پہلے تو اس کا حليہ دیکھ کر ہی رشی حيران ہو گیا۔ کيا واقعی يہ وہی مليحہ تھی ۔ دوپٹہ تو خير پاکستان مىن بھی نہیں لیتی تھی مگر شلوار قميض بھی ڈھيلا ڈھالا سا ہوتا تھا اور يہاں جسم سے چپکی پينٹ ، چھوٹی سی سلیوليس ٹاپ اور کھلا گلا جيسے سب کچھ عياں کيے جا رہا تھا ۔ رشی کو بہت عجيب لگا جب اس کے پھوپھويا پھوپھا نے اس انداز پر اسے کچھ نہيں کہا جيسے یہ اس کی روزمرہ کی ڈريسنگ ہو ۔ اس کے انداز ميں بھی کوئی گرمجوشی نہيں تھی ۔
رشی نے سوچا شايد تھکاوٹ ہو گی ۔ بيڈ روم ميں تو شام سے بھی سرد ماحول تھا ۔ اس کے واش روم جانے اور واپسی تک مليحہ بيڈ پر ايک طرٖف ليٹ کرتقريبا” سو چکی تھی ۔ رشی نے دو تين آوازيں دیں مگر کوئی جواب نہ ملا۔ وہ بھی ليمپ بند کر کے ليٹ گيا ۔ اسے یہ سب کچھ بہت عجيب لگ رہا تھا ليکن ابھی پہلا دن تھا اس لیے وہ ابھی کوئی راۓ قائم نہىں کرنا چاہتا تھا۔ سفر کی تھکاوٹ سے نيند کافی گہری آئی ۔ صبح جب آنکھ کھی تو ملیحہ يونيورسٹی جا چکی تھی۔ وہ ايک بارپھرحيران رہ گيا ۔
پھوپھوتو صدقے وای جا رہی تھيں مگر اس کا دماغ کہيں مصروف تھا کہ مليحہ اس طرح کا برتاؤ کيوں کر رہی ہے؟ اس کے پاس فی الحال اس کا کوئی جواب نہيں تھا۔ آج کی شام بھی کل شام سے کچھ خاص مختلف نہيں تھی ۔ صرف اتنا فرق تھا کہ مليحہ آج سوئی نہيں لیکن تھکاوٹ کا کہہ کر فاصلہ برقرار رکھا۔ اگلا دن چھٹی کا تھا ۔ پھوپھونے مليحہ سے کہا کہ رشی کو گھمانے پھرانے لے جاۓ ۔ ملیحہ نے انکار تو نہيں کیا مگر اس کے انداز سے صاف پتا چل رہا تھا کہ اس کا دل نہىں ہے ۔ خير ۔۔۔۔۔ جانا ہی پڑا ۔
اس کی ڈريسنگ کافی قابل اعتراض تھی ۔ رشی نے ہلکا سا کہا تو مليحہ نے يہ کہہ کر چپ کرا ديا کہ يہ تمہارا پاکستان نہيں ۔ ديوار برلن کے پاس سے گزرتے ہوۓ اچانک کسی نے مليحہ کو پکارا ۔ یہ کسی لڑکے کی آواز تھی ۔ ملیحہ ایک دم مڑی اور تقريبا” بھاگتے ہوۓ اس لڑکے کے گلے لگ گئی ۔ رشی تو ششدر رہ گیا ۔ دونوں جرمن زبان ميں باتيں کرتے رہے اور وہ ہونقوں کی طرح وہاں کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا ۔ ايک آدھ بار اسے لگا کہ وہ اس کی طرف ديکھ کر طنزیہ انداز ميں ہنسے بھی تھے مگر اس نے اسے اپنا وہم سمجھا۔
اسےبہت غصہ آ رہا تھا ۔ ليکن وہ کر کچھ نہيں سکتا تھا۔ بعد ميں استفسار پر ملیحہ نے بتايا کہ وہ اس کا کلاس فيلو تھا اور3، 4 دن سے نہيں آيا تھا ، اس ليے وہ اس کا حال احوال پوچھ رہی تھی۔ زندگی کچھ عجيب سے ڈھب پر گزر رہی تھی ۔ وہ جوپاکستان ميں ہل کر پانی نہيں پيتا تھا يہاں سب کام خود کرتا ۔ ابھی جرمن زبان سيکھنا شروع نہيں کی تھی اس ليے گھر پر ہی ہوتا ۔ مليحہ کا رويہ پہلے دن کی طرح سرد تھا اور وہ چاہتے ہوے بھی اسے اپنی طرف متوجہ نہيں کر پا رہا تھا۔ ماں باپ کو سب اچھا کی رپورٹ ديتا ۔
بہنوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا مگر اس کا دل ہر وقت اداس رہتا ۔ جس کے لیے اتنے دور آيا تھا ، وہی اس کو لفٹ نہيں کراتی تھی ۔ 3 ماہ گزر گۓ ۔ وہ ابھی تک چپ تھا ۔ ايک دن ملیحہ يونیورسٹی گئی ، شام گزر گئی ، رات ہو گئی مگر وہ واپس نہ آئی ۔ پھوپھوکو بتايا توانہوں نے کہا آ جاۓ گی ، فکر کرنے کی کيا بات ہے؟ وہ بہت حيران تھا کہ وہ لڑکا تھا اور پاکستان ميں رات 10تک گھرلوٹنا پڑتا تھا کيونکہ امی ابا دونوں کو فکر لگ جاتی تھی اور يہاں ايک لڑکی کے والدين رات کے ايک بجے اسے کہہ رہے تھے کہ خير ہے آ جاۓ گی۔ رات
3 بجے مليحہ کی آمد ہوئی ۔ رشی نے آج اس سے بات کرنے کا فيصلہ کر لیا تھا۔ اس کا تو يہ پوچھنا ہی غضب ہو گيا کہ وہ اتنی دير سے کيوں آئی ہے؟ مليحہ نے تو چيخنا چلانا شروع کر ديا کہ وہ ہوتا کون ہے اس پر جرح کرنے والا ؟ اس کے تو ماں باپ نے کبھی نہیں پوچھا ، اسے يہ حق کس نے ديا ۔ اس کے منہ ميں جو کچھ آیا وہ کہتی چلی گئی اور رشی گم ، افسوس اور غصے کے ملے جلے جذبات ميں بيٹھا یہ سوچتا رہ گیا کہ کيا اس کے باہر انے کی خواہش کی اورمليحہ سےمحبت کی سزا اسے اتنی بڑی ملے گی ؟ دوسرے دن مليحہ نے صبح
اعلان کر ديا کہ وہ اب مزيد رشی کے ساتھ نہيں رہ سکتی ۔ وہ ايک دقیانوسی مرد ہے ۔ اسے اپنی آزادی اور عزت نفس بہت پياری ہے ۔ اگر اسے اس کے ساتھ رہنا ہے تو کان ، آنکھيں اور منہ بند کر لے ، دوسری صورت ميں واپسی کا ٹکٹ کٹا لے ۔ ایسے ميں اب رشی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کچھ عرصے کے ليے پہلی شرط پر عمل کرے تاکہ جرمن زبان سیکھ کروہ کہيں کام شروع کر سکے اوراس کا ويزا بھی پکا ہو جاۓ اور کہيں رہنے کا بھی بندوبست ہو جاۓ.
تو اس کے بعد پہلی فرصت ميں اسے طلاق دے سکے ۔ کيونکہ وہ واپس جا کر اپنے ماں باپ کے بوجھ مين اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کو يہ نصیحت ضرور کرتا ہے کہ اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرو ۔ دوسرے ملک جا کر اپنی عزت نفس گنواکر جينے سے بہتر اپنے ملک میں محنت کرکے زندگی گزارنا ہے ۔