آج بھائی کہہ رہے تھے سیفٹی کا کورس کرکے عرب ممالک چلے جاؤ، تنخواہ اچھی ملے گی، پھر کسی اونچے خاندان سے تمہاری شادی کرالیں گے۔ میں نے کہا، اچھا تنخواہ زیادہ ہوئی تو پھر کوئی بغیر بازؤں کی قمیض پہننے والی بیوی۔ اور اگر کم ہوئی تو پھر کوئی پردہ دار اور شریف لیکن غریب خاندان سے شادی کراؤ گے۔ اس بات پر پھر بھائی نے مجھے اپنے استاد سے سنا ہوا سچا واقعہ سنایا۔ بھائی کو ان کے استاد نے ایک مرتبہ ایک
واقعہ سنایا، چلیں انہی کی زبانی سناتا ہوں۔ میرا ایک شاگرد کالج کے بعد ایک اچھی جگہ نوکری پر لگ گیا، گھر والوں نے گاؤں کی ہی ایک شریف سی لڑکی سے اس کی شادی کرادی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس لڑکے کو ایک اور جگہ کافی پرتعیش جاب کی آفر ہوئی اور وہ وہاں چلا گیا۔ وہاں جاکر تو اس کا “لائف سٹائل” ہی تبدیل ہوگیا، آئے دن “پارٹیز” میں جانا ہوتا، وہاں وہ اپنے دوستوں کی بن سنور کر آئی ہوئی بیویوں سے بڑا متاثر ہوتا۔۔ آہستہ آہستہ اس میں احساس کمتری پیدا ہونے لگا، ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہا “استاد جی! میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں۔” میں نے اسے بہت سمجھایا لیکن اس کی عقل پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ آخر اس نے اپنی سگھڑ بیوی کو طلاق دے دی(حالانکہ اس بیوی سے ایک بچی بھی تھی، جسے ماں کے حوالے کردیا) اور ایک “روشن خیال” قسم کی لڑکی سے شادی کرلی۔ پھر کافی عرصہ بعد اس سے ملاقات ہوئی۔۔۔ میں نے پوچھا سناؤ کیسی گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا، “سٹیٹس تو “ہائی” کرلیا ہے لیکن روز صبح اپنا ناشتہ خود بناتا ہوں، بچوں کو تیار کر کے سکول وین پر بٹھاتا ہوں، پھر آفس کیلئے تیار ہوکر بیگم کا ناشتہ تیار رکھ کر تب آفس جاتا ہوں۔