وسیع گھنے جنگل کے درمیان ایک بڑی سی جھیل تھی۔جھیل کے اطراف میں گھاس پھوس کی بنی ہوئی جھونپڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔پاس ہی ایک میدان جیسی جگہ تھی جہاں ننگے بچے نوکیلے بانس کی بنی ہوئی چھڑیوں سے ایک کیلے کے پیڑ پر نشانہ سادھ رہے تھے۔جھیل کے کنارےکچھ لوگ مچھلیوں کے شکار میں سرگرم تھے۔
قبیلے کے کچھ لوگ جنگل میں خوراک کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے جبکہ کچھ لوگ اپنی جھونپڑیوں کے قریب بندھے ہوئےجانوروں کو چارہ کھلانے میں منہمک تھے۔عورتیں جھونپڑیوں میں مٹی کی بنی ہوئی ہانڈیوں میں کھانا پکا رہی تھیں۔ تبھی ہُو ہُو کی آواز ابھری۔ جھونپڑیوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔عورتیں ،بچے اور مرد اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ان کے درمیان خونخوار درندے در آئے تھے جو اپنے شکار کے لئے پھرتی دیکھا رہے تھے۔ افرا تفری کا یہ ماحول چند لمحوں تک رہا اُس کے بعد ایک گہری خاموشی چھاگئی۔پھر قبیلے کے لوگ میدان میں اکٹھے ہوتے گئے۔وہاں ایک اونچی جگہ بنائی گئی تھی جس پر ایک خوفناک شکل کا دیوتا نسب تھا۔ اس دیوتا سے ایک سیڑھی نیچے کی جگہ پر اُن کا سردار کھڑا کسی سوچ میں گُم تھا۔ وہاں سبھی ہاتھ جوڑے مدد مدد کی فریاد کر رہے تھے۔ کچھ توقف کے بعد سردار نے اُنہیں خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور کہا۔ “لوگو! ہمارا دیوتا ہم سے ناراض ہوچکا ہے۔وہ ہم پر اپنا قہر نازل کررہا ہے اور ہم سب باری باری شکار ہورہے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے دیوتا کو خوش کریں۔اپنے دشمنوں کے خون سے اُس کے غضب کو ٹھنڈا کریں۔بس یہی ایک راستہ ہے جس سے ہم ان بلاؤں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔اس کے لئے ہمیں دشمنوں کی ٹولی میں جانا ہوگا اور اپنے دیوتا کو قربانی پیش کرنے کے لئے اُنہیں پکڑ کر لانا ہوگا۔اس لئے اب چلو،تیار ہوجاؤ اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرو۔”
اور پھر یہ بہادر،نڈر اور بے رحم انسان اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لئے دشمنوں کی ٹولی کی طرف نکل پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انگنت کمزور اور بےبس لوگ اُن کے پنجوں کا شکار ہوگئے اور جانوروں کی طرح اُسی میدان میں باندھ دئے گئے۔مقرۤرہ قربانی کے دن اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لئے ہر ایک کو ذبحہ کرتے اور اُن کے خون سے دیوتا کو نہلاتے۔ سیاہ پتھر کا تراشا ہوا دیوتا خون میں نہاتے نہاتے سُرخ ہوگیا تھا۔ انسان اپنی حفاظت کے لئے انسان کو ہی مار رہا تھا۔ ہر طرف کمزوروں اور مظلوموں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔
قبیلے کے مرد،عورتیں اور بچے اب خوش تھے کہ درندے اب اُن کی جھونپڑیوں کا رُخ نہیں کریں گے۔اب اُن کا دیوتا خوش ہوچکا ہے اور ایسا ہی ہوا ہے۔انسانی خون کے پیاسے درندے ادھر کا راستہ ہی بھول چکے تھے۔اب یہاں اس طرح کا کوئی واقعہ بہت دنوں سے رونما ہوا ہی نہیں مگر انسانی قربانی اپنے دیوتا کو دینا اُن کی مجبوری بن گئی۔وہ سال میں اُسی دن جس دن سورج کی تپش سے زمین گرم ہو اُٹھتی ہے،ہوائیں جسموں کو جھلسا دیتی ہیں،چرند پرند سورج کے عتاب سے ہانپنے لگتے ہیں،اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لئے اکٹھا ہوگئے۔
ہر طرف زندگی خوشی سے شاداب نظر آرہی تھی۔کیا بڑے کیاچھوٹے سب ہانڈی پی پی کر جشن منارہے تھے۔ناچ رہے تھے،گارہے تھے اور مصیبتوں سے نجات پانے کے لئے موت کا بازار گرما رہے تھے۔ جبکہ قربان ہونے والے موت سے پہلے مرے جارہے تھے۔یہ سب کسی دوسرے کمزور قبیلے کے تھے جنہیں طاقت کے زور پر پکڑ لایا گیا تھا۔ان میں ایک ایسا خدا پرست نوجوان بھی شامل تھا جو رو رہا تھا،چلا رہا تھا اور اپنے رب کو پکار رہا تھا۔ “اے آسمانوں کے خدا! تو ہمیں ان درندوں کے ہاتھوں سے بچا لے۔”
اُس کی چیخ مسلسل اُبھر رہی تھی۔قربانی دینے کی رسم شروع ہوچکی تھی۔دیوتا خون میں نہا رہاتھا۔مطلوموں کی آنکھوں کا جھرنا خوف و ہراس سے خشک ہوچکا تھا۔ان کی آوازیں موت سے پہلے دم توڑ چکی تھیں۔محض اُن کا جسم کانپ رہا تھا اور پیر تھرتھرا رہے تھے۔ دفعتاً سیاہ بادلوں کا ایک جھنڈ مغرب سے اُمنڈ آیا۔تپتا ہوا سورج سیاہی کے غار میں چھپ گیا۔سیاہ تاریکی پھیلنے لگی اور چاروں طرف سے عجیب عجیب چیخیں نمودار ہونے لگیں۔ “اور جلدی کرو،ابھی تک ہمارا دیوتا ہم سے ناراض ہے۔”
اندھیرے میں سردار کی آواز اُبھری اور اسی کے ساتھ کڑاکے سے بجلی کوندی اوران جھونپڑیوں میں آگ جل اُٹھی۔ہوا کے تیز جھونکوں نے پیٹرول کا کام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا جنگل دہکتے ہوئے شعلے کی نذر ہوگیا اور اُن کا دیوتا آگ میں تپ کر چٹخ چٹخ کر بکھر گیا۔