شیروں نے کئی بار اپنے دانتوں اور پنجوں سے اس کے جسم کو زخمی کیا۔ کئی بار اسے ایسا لگا کہ شیر کے دانت اس کی ران کی ہڈی میں گڑ گئے ہیں۔ ہاتھیوں نے اسے اپنی سونڈ میں پکڑ کر ہوا میں اچھالا ہے۔ ریچھوں نے اسے چت زمین پر گرایا ہے۔ ایک بار ایک کالے ریچھ نے اسے اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ زمین پرکتنی دیر بے ہوش پڑا رہا۔
کوئی اکیس بار اسے زخمی حالت میں سٹریچر پر ڈال کر لے جایاگیا اور آخری بار جب اس کے سب سے بڑے شیر نیرو نے اسے پچھاڑا تو وہ دس ہفتے ہسپتال پڑا رہا۔ اس کی ایک ٹانگ تقریباً بے کار ہوگئی۔ کلایڈ بیٹی کا دھندا، دنیا کے خطرناک پیشوں میں ہے۔ وہ دن میں ایک بار نہیں کم از کم دو بار شیروں کے جبڑے کے اندر جھانکتا ہے۔ بیمہ کمپنیوں کو معلوم ہے کہ وہ کسی وقت بھی کسی درندے کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔ اس لیے ان میں سے کوئی کمپنی اس کی زندگی کا بیمہ کرنے پر تیار نہ تھی۔ وہ سرکس کا واحد کھلاڑی ہے جو کسی قیمت پر بھی بیمہ کی پالیسی حاصل نہیں کر سکتا۔کلایڈ بیٹی نے مجھے بتایا کہ اس نے کئی بار سوچا ہے کہ یہ دھندا ترک کر دے۔ لیکن پھر اسے یہ خیال آتا ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی نہ کوئی کام تو کرنا ہی پڑے گا۔ اگر کسی کارخانے میں جمع تفریق کرنا پڑی یااس قسم کا کوئی کام اس کے گلے پڑ گیا، تو وہ کوفت میں مر جائے گا۔ اگر مرنا ہی ہے تو کوفت سے مرنے کی بجائے کھیل کود میں کیوں نہ دم دے دیا جائے۔ کلایڈ بیٹی نے اپنی زندگی کا نصف حصہ سرکس میں گزارا ہے۔ اس کا بچپن چیلی کوتھی (اوہیو) میں گزرا، اور وہ اسی زمانے سے سرکس کا رسیا تھا۔ ایک روز برنم اور بیلی کا سرکس اس شہر میں آیا۔ ایک لانڈری والے نے اپنی دکان کے اندر اس سرکس کا اشتہار لگایا ہواتھا اور اس رنگین اشتہار میں یہ دکھایا گیا تھا کہ شیروں کو سدھانے والا ایک بہادر افریقی شخص شیروں پر ہنٹر برسا رہا ہے۔
اشتہار پر نظر پڑتے ہی کلائیڈ بیٹی بھاگا بھاگا دکان کے اندر گیا اور لانڈری والے سے التجا کی کہ سرکس کے جانے کے بعد وہ یہ اشتہار اسے دے دے۔ لانڈری والے نے کہا کہ تمہیں یہ اشتہار دے دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ تم ایک ہفتہ میرے ساتھ ہاتھ بٹاؤ گے۔‘‘ اس نے یہ شرط قبول کرلی۔ اس وقت اس کی عمر صرف بارہ سال تھی اور اس عمر میں بھی اس نے بعض جانوروں کو اپنے اشاروں پر نچانے کی مہارت پیدا کر لی تھی کم از کم وہ اس خوش فہمی میں ضرور مبتلا تھا۔
اس کے پاس پانچ کتے تھے، جنہیں اس نے اٹھنے بیٹھنے، سلام کرنے، زمین پر لوٹنے اور دم ہلانے کی تربیت دے رکھی تھی۔ چنانچہ وہ لانڈری والے سے لیا ہوا اشتہار دیوار پر لگا کر اکثر اوقات اپنے ہم جولیوں کے سامنے اپنے کرتب دکھاتا۔ اس کے بعد ہرسال جب بھی اس کے شہر میں سرکت آتی، وہ اس کے مالک سے جا کر ملازمت کی درخواست کرتا اور ہر بار اسے یہی جواب ملتا کہ تم ابھی چھوٹے ہو۔ پھر موسم بہار کی ایک صبح کو جب سرکت کا ایک بہت بڑا قافلہ شہر سے باہر نکل رہا تھا تو بیٹی بھی اس کے ہمراہ تھا۔
اس کا دل شدت جذبات سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے پریشان والدین تین روز تک اسے تلاش کرتے رہے۔ جب اس نے ایک خط گھر اپنے والدین کو روانہ کیا کہ وہ ایک سرکس میں پنجرے دھونے پر ملازم ہوگیاہے۔ تو اس کی ماں یہ پڑھ کر کئی روز روتی رہی۔ اس وقت کلایڈ بیٹی کی عمر صرف پندرہ سال تھی۔ اسے ماہانہ ایک پونڈ تنخواہ ملتی تھی۔ آئندہ دس سالوں میں چیلی کوتھی، اوہیوکا یہ نوجوان تمام شیر سدھانے والوں کو پیچھے چھوڑ گیا۔
اس نے اس میدان میں اتنی جرأت، دلیری اور بعض اوقات اتنی حماقت کا مظاہرہ کیا کہ سرکس کا ہر شخص یہ کہتا تھا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں اور جب وہ سچ مچ اسے یہ کرتے دیکھ لیتے تو یہ رائے قائم کر لیتے کہ وہ پاگل ہے۔ اور اس کی زندگی انتہائی ارزاں ہے۔ اس نے چالیس خون خوار دھاڑتے ہوئے ببر شیروں اور شیروں کو ایک ہی پنجرے میں بند کرکے خود بھی اس پنجرے میں جا کر ان پر ہنٹر برسانے شروع کردیے۔ اس واقعہ نے پورے سرکس میں سنسنی کی لہر دوڑادی۔
دیکھنے اور سننے والے حیران رہ گئے کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ببر شیر اور شیر ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی ایک دوسرے پر پل پڑتے ہیں۔ کلایڈ بیٹی نے کتنی بار ہی اس طرح خون خوار جنگلی درندوں کے پنجرے میں جا کر انہیں اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیاہے۔ لیکن اس کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ کلایڈ بیٹی کہتاہے کہ شیر اور ببر شیر اتنے خطرناک نہیں کہ ان پر آسانی سے کنٹرول نہ کیا جاسکے۔
اسے سبھی جانوروں سے پالا پڑاہے۔ شیر، ببرشیر، چیتا، گینڈا، ہاتھی۔ اس کا تجربہ بتاتا ہے کہ ان سب میں خطرناک ترین جانور ریچھ ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ سب سے مشکل کام شیر کو ہاتھی کی پیٹھ پر سوار کرایا جائے۔ ایک روز ایک ہاتھی نے تو اسے تقریباً ہلاک ہی کر دیاتھا۔ دراصل وہ شیر کے پنجرے کی طرف جا رہا تھا کہ ہاتھی کو شیر کی نفرت انگیز خوشبو آ گئی۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ جانوروں کو سدھانے والے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان پر قابو پاتے ہیں،
لیکن کلایڈ بیٹی نے مجھے بتایا کہ یہ سب غلط ہے اگر ماویسٹ بھی ایک شیر سے نظریں ملائے تو یہ شیر بھی لمحہ بھر میں اس کی تکہ بوٹی کر دے۔ وہ تو صرف اس وجہ سے اپنے جانوروں کی آنکھوں کی طرف دیکھتا ہے تاکہ یہ اندازہ کر سکے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور آئندہ ثانیے کیا کرنے والاہے۔ بیٹی کا کہنا ہے کہ کسی تربیت دینے والے نے آج تک کبھی کسی شیر کے منہ میں اپنا سر نہیں دیا۔ ویسے بظاہر دیکھنے میں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ میں بعض ایسے تربیت دینے والے جانوروں کو جانتا ہوں، جو انتہائی نڈر اور دلیر ہیں لیکن میں نے ان میں سے کوئی ایسا بے وقوف نہیں دیکھا کہ جو سچ مچ شیر کے منہ میں اپنا سر دے دے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ شیروں کو کرتب سکھانے والے خوف ناک جانوروں کو قابو میں لانے کے لیے دہکتی آگ سے نکالی ہوئی سرخ سلاخیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بیٹی کا کہنا ہے کہ اگر آپ خود کشی کرنا چاہتے ہیں تو آپ ایسے شیر کے پنجرے میں داخل ہوجائیں جسے لوہے کی تپتی ہوئی سلاخ سے ضرب پہنچائی گئی ہو۔
اس کے بے ضرر ہتھیاروں میں ایک عام کرسی، ایک چھانٹا اور ایک خالی کارتوس سے بھرا ہوا ایک پستول ہوتا ہے۔کلایڈ بیٹی کا کہنا ہے کہ اس نے پالتو جانوروں کے ساتھ بھی کام کیاہے۔ یعنی ایسے جانوروں کے ساتھ جنہوں نے غلامی میں پرورش پائی ہو۔۔۔ لیکن اس نے ان کی نسبت ہمیشہ جنگلی جانوروں کو ترجیح دی ہے۔ پالتو جانور بگڑے ہوئے بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں اس قدرکاہل اور سست بنا دیا جاتا ہے کہ آخر کار وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
اس سے کئی باریہ سوال پوچھاگیاکہ کیا شیر ببر شیر کو پچھاڑ سکتا ہے؟ یا کیا ببر شیر، شیر کو مات دے سکتاہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں جانتا۔ کئی بار ایسا ہواہے کہ وہ بڑے پنجرے کے پاس کھڑا ہوا ہے اور اس کے آس پاس شیر اور ببر شیر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ اس نے یہی دیکھا ہے کہ ہمیشہ ببر شیر مل کر لڑتے ہیں لیکن شیر اکیلا مقابلہ کرتاہے۔ جب ایک ببر شیر لڑنے لگے تو آس پاس جتنے ببرشیر ہوں،
سب اس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ خاص طور پراگر وہ آپس میں بھائی بھائی ہوں تو ایک دوسرے کی مدد میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کرتے۔ ببر شیر نوجوان لڑکوں کی طرح ہوتے ہیں، ذرا جھگڑا ہو جائے تو وہ سب لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں لیکن ایک شیر کو خونی رشتوں کا احساس نہیں ہوتا، اس سے تو یہ بھی بعید نہیں کہ اس کے سامنے اس کا ساتھی مر رہا ہو، اور وہ چبوترے پر بیٹھا ہوا جمائیاں لیتا رہے۔