ایک نجی ٹی وی چینل پر معلوماتی پروگرام میں ایک سائل کی جانب سے سوال پوچھا کیا گیا کہ انگلیوں میں پہننے والے پتھر اور نگینوں کی افادیت کے حوالے سے اسلام ہماری کیا رہنما ئی کرتا ہے؟ کیا یہ پتھر تقدیر بدلنے اور نفع دینے کی طاقت رکھتے ہیں؟مفتی صاحب نے سائل کا جواب دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے ہاتھ کی انگلی میں عقیق پہنا ہے اور زیادہ تر یمنی عقیق استعمال کیا ہے تاہم یہ صرف زیبائش کے لیے تھا
اس لیے عقیق کو محض پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پہننا چاہیے نا کہ کسی نفع کے حصول کی نیت سے پہنا جائے۔مفتی صاحب نے کہا کہ عقیق ہو یا کوئی اور پتھر ہو وہ محض پتھر ہی ہیں جو نہ تو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا نقصان پہنچانے طاقت یا صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے پتھروں اور نگینوں کی نفع پہنچانے کی باتیں جیسے فلاں پتھر رزق میں فراوانی کا باعث ہوتا ہے اور فلاں سے تقدیر بدل جاتی ہے یا فلاں پتھر زیادہ فائدہ مند ہے بے بنیاد ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مفتی صاحب نے مذید کہا کہ اللہ اپنے آخری کلام میں انسانوں کو یہی پیغام دیتا ہے کہ سب کا کارساز اور کاتب تقدیر وہی ایک ذات ہے جو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور زمین سے غلہ اگاتا ہے اور جسے چاہتا ہے رزق کشادہ کر کے دیتا ہے اور جسے چاہے اولاد سے نوازے اور جسے چاہے محروم رکھے۔مفتی صاحب نے بتایا کہ اللہ اپنے کلام میں واضح فرماتے ہیں کہ ’’ انسان کو اتنا ہی ملتا ہے جتنی اس نے کوشش کی ہو تی ہے‘‘ یعنی اللہ چاہتے ہیں کہ انسان کامیابی کے لیے اپنے علم، ہنر اور ذور بازو پر بھروسہ کرے ناکہ بے جان پتھروں پر تکیہ کیے بیٹھا رہے اور جدوجہد سے عاری زندگی گذار دے۔مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ انگلی میں پہنی گئے کسی بھی پتھر کی تاثیر گرم و سرد ہوسکتی ہے جو اگر جسم کی کھال سے مس ہو
تو دورانِ خون میں یہ اثرات گردش کر سکتے ہیں جس کے جسم پر اثرات بھی مرتب ہو سکت ہیں تاہم یہ بھی اس صورت میں ہوسکتا ہے جب پتھر اصلی ہو اور جلد سے مَس بھی ہو رہا ہو۔