ہفتہ‬‮ ، 12 جولائی‬‮ 2025 

سعودی عرب،خلیفہ اول کے حبشہ کے سفر میں آ نے والے مقام “البِرک” کے بارے میں حیرت انگیزانکشافات

datetime 13  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ریاض(آئی این پی )سعودی عرب اور برطانیہ کی ایک تحقیقی ٹیم نے مملکت کے صوبے عسیر کے ضلع “البِرک” میں آثاریاتی نوادرات دریافت کرلیے ، یہ پیش رفت کچھ عرصہ قبل مذکورہ علاقے میں ہونے والی کھدائی کے دوران ہوئی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کنگ سعود یونی ورسٹی میں تاریخ اور آثارقدیمہ کے پروفیسر ڈاکٹر سعید السعید کے مطابق کھدائی کے دوران پتھروں پر کندہ 14 نقوش بھی سامنے آئے ہیں۔عسیر

کے ساحل میں سعودی برطانوی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ضیف اللہ العتیبی نے واضح کیا کہ ٹیم نے جزیرہ فرسان اور مملکت کے جنوب مغربی ساحلوں کا سروے کیا اور رواں برس تحقیقی کام کا دائرہ کار عسیر صوبے کے ضلع البرک میں تھا۔البرک میں پائے جانے والے کئی سنگِ میل اور تاریخی نقوش ہزاروں سالوں سے جزیرہ نما عرب کے بیچ اس مقام کی تاریخی حیثیت اور اقتصادی اہمیت کو باور کراتے ہیں۔ ان میں نمایاں ترین مقام “جبل العش” ہے جس کو مقامی لہجے میں “جبلِ ام عش” بولا جاتا ہے۔ یہاں موجود تاریخی نقوش قدیم “المسند” خط میں تحریر ہیں۔ڈاکٹر سعید السعید کے مطابق انہوں نے اپنے تحقیقی مطالعے میں البرک کے پہاڑی علاقے میں پتھروں پر 14 نقوش کی دریافت کا ذکر کیا ہے۔”البرک” کی تاریخ میں تخصص کے حامل محقق عبدالرحمن آل عبدہ کے مطابق ” البرک کی باڑھ اس کے وسط میں واقع ہے۔ یہ 629 ہجری کے اوائل میں بنائی گئی پھر 704 ہجری میں اس کی تجدیدِ نو ہوئی۔ بعد ازاں کئی دہائیوں تک اس کی تجدید اور اس میں اضافوں کا سلسلہ جاری رہا”۔البرک کے تاریخی محلات اور آثاریاتی قلعوں کو یہاں کے نمایاں ترین تاریخی مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں وادی ذہبان کے مقابل قلعہ بھی شامل ہے جو جنوب میں 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشرقی جانب سے باقی رہ جانے والے اس کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔”البِرک” میں تیسری اور چوتھی

صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے تہذیبی ورثے کے آثار اب بھی برقرار ہیں۔ بہت سے مرخین اور جغرافیائی ماہرین کا کہنا ہے کہ “البِرک” ہی درحقیقت “بِرک الغماد” کا مقام ہے جس کا ذکر مصادر اور عرب ورثے کی کتابوں میں موجود ہے۔خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مسجد یہاں کے اہم ترین تاریخی یاگاروں میں سے ہے۔ اس کا رقبہ 90 مربع میٹر ہے اور یہ شاہراہِ الدولی سے 300 میٹر کی دوری پر ہے۔

عبدالرحمن آل عبدہ کے مطابق یہ مسجد خلیفہ اول نے اس وقت تعمیر کی جب وہ حبشہ کے لیے ہجرت کے سفر میں البِرک سے گزرے تھے۔اس مسجد کے نزدیک “المجدور” کا تاریخی کنواں بھی ہے جس کی گہرائی نو میٹر اور چوڑائی دو میٹر ہے۔ بحرِ احمر کے قریب ہونے کے باوجود یہ کنواں البِرک میں پینے کے صاف پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور مرکزی راستوں میں باغوں اور درختوں پر پانی کے چھڑکا کے لیے بھی اسی کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کان پکڑ لیں


ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…