کسی شخص نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ سے سوال پوچھا‘ حضرت! دین کی جو کتابیں آپ نے پڑھیں وہی کتابیں آپ کے دوسرے ساتھیوں نے بھی پڑھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو مرتبہ آپ کو دیا ہے وہ کسی اور کو نہیں دیا اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ نے عجیب جواب دیا کہ میرے ساتھیوں نے قرآن مجید کو اس نیت سے پڑھا کہ
ہم معارف قرآن کو جان لیں اور حقائق قرآن مجید سے واقف ہو جائیں‘ اس لئے ان کو وہ حقائق تو مل گئے مگر وہ نعمت نہ ملی جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر دی‘ اس نے پوچھا حضرت! یہ نعمت آپ کو کیسے ملی؟ فرمانے لگے کہ میں نے جب بھی قرآن کو پڑھا ہمیشہ اس نیت سے پڑھا کہ اے اللہ! تیرا غلام حاضر ہے تیرا حکم جاننا چاہتا ہے کہ جس کو یہ اپنی زندگی میں عمل میں لے آئے۔ سبحان اللہ! یہی چیز صحابہ کرامؓ میں تھی۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے اڑھائی سال کے اندر سورہ بقرہ مکمل کی‘ حالانکہ عربی زبان تو ان کی مادری زبان تھی‘ اس لئے ان کو تو صرف و نحو کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی‘ پھر اڑھائی سال کیسے لگے؟ معلوم ہوا کہ وہ حضرات! ایک ایک آیت پڑھتے تھے اس پر عمل کرتے تھے ادھر ان کی سورہ مکمل ہوتی تھی اور ادھر ان کا عمل اس سورہ پر مکمل ہوتا تھا۔کسی شخص نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ سے سوال پوچھا‘ حضرت! دین کی جو کتابیں آپ نے پڑھیں وہی کتابیں آپ کے دوسرے ساتھیوں نے بھی پڑھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو مرتبہ آپ کو دیا ہے وہ کسی اور کو نہیں دیا اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ نے عجیب جواب دیا کہ میرے ساتھیوں نے قرآن مجید کو اس نیت سے پڑھا کہ ہم معارف قرآن کو جان لیں اور حقائق قرآن مجید سے واقف ہو جائیں‘ اس لئے ان کو وہ حقائق تو مل گئے مگر وہ نعمت نہ ملی جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر دی‘ اس نے پوچھا حضرت! یہ نعمت آپ کو کیسے ملی؟ فرمانے لگے کہ میں نے جب بھی قرآن کو پڑھا ہمیشہ اس نیت سے پڑھا کہ اے اللہ! تیرا غلام حاضر ہے تیرا حکم جاننا چاہتا ہے کہ جس کو یہ اپنی زندگی میں عمل میں لے آئے۔