شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی عمر کا آخر زمانہ تھا ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے درس قرآن کے دوران پانی مانگا ایک طالب علم بھاگ کر ان کے گھر گیا اور کہا کہ شاہ صاحب نے پانی مانگ ہے جب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے سنا تو انہوں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے‘ افسوس میرے خاندان سے علم کا نور اٹھا لیا گیا۔
بیوی نے کہا کہ جی آپ اتنی جلدی فیصلہ نہ کریں میں ابھی صورتحال معلوم کر لیتی ہوں
چنانچہ انہوں نے گلاس میں پانی ڈالا اور اس میں سرکہ ملا دیا‘ سرکہ کڑوا ہوتا ہے اور پینے میں عجیب ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ طالب علم جب سرکہ ملا پانی لے گیا تو شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے وہ پانی لے کر پی لیا اور درس قرآن دیتے رہے جب درس قرآن سے فارغ ہو کر گھر آئے تو والدہ نے پوچھا‘ بیٹا! تم نے پانی پی لیا تھا؟ عرض کیا جی پی تھا‘ والدہ نے پوچھا وہ پانی کیسا تھا؟ عرض کیا امی! مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ وہ کیسا تھا؟ اب انہوں نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ دیکھئے عبدالعزیز کو پانی کی اتنی شدید پیاس تھی کہ پانی میں سرکہ کا پتہ نہیں چلا‘ اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے بے ادبی کی وجہ سے نہیں پیا بلکہ اپنی ضرورت کی وجہ سے پیا جو عین جائز تھاورنہ تو درس بھی نہ دے پاتے‘ اس لئے ہمارے خاندان سے ابھی ادب رخصت نہیں ہوا یہ سن کر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اطمینان کا سانس لیااور دعا کی کہ اے اللہ! میرے خاندان میں علم و ادب کو ہمیشہ باقی رکھنا۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی عمر کا آخر زمانہ تھا ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے درس قرآن کے دوران پانی مانگا ایک طالب علم بھاگ کر ان کے گھر گیا اور کہا کہ شاہ صاحب نے پانی مانگ ہے جب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے سنا تو انہوں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے‘ افسوس میرے خاندان سے علم کا نور اٹھا لیا گیا۔