شاہ عبدالقادر رائے پوری فرماتے ہیں کہ جب میں دارالعلوم میں حاضرہوا تو اس وقت کلاس کے داخلے بند ہو چکے تھے۔ ناظم تعلیمات نے انکار کر دیا کہ ہم آپ کو داخلہ نہیں دے سکتے‘ میں نے ان سے گزارش کی کہ حضرت آخر کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارے دارالعلوم میں مطبخ نہیں ہے اور نہ کوئی طباخ ہے بلکہ بستی والوں نے ایک ایک دو دو طالب علموں کا کھانا اپنے ذمہ لے لیا
اس لئے جتنے طلباء کا کھانا گھروں سے پک کر آتا ہے اتنے طالب علموں کو داخلہ دیتے ہیں اور بقیہ سے معذرت کر لیتے ہیں‘ اب کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں ہے جو مزید ایک طالب علم کا کھانا پکانے کی استطاعت رکھتا ہو‘ حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اگر کھانے کی ذمہ داری میری اپنی ہو تو کیا پڑھنے کیلئے آپ مجھے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اس طرح ان کو مشروط داخلہ مل گیا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میں سارادن طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر پڑھتا رہا رات کو تکرار کرتا اور جب طلبہ سو جاتے تو میں اساتذہ کی اجازت کے ساتھ دارالعلوم سے باہر نکلتا بستی میں سبزی یا فروٹ کی دکانیں تھیں‘ اس وقت تک تو وہ دکانیں بند ہو چکی ہوتی تھیں میں ان کے سامنے جاتا تو مجھے کہیں سے آم کے چھلکے‘ کہیں سے خربوزے کے چھلکے اور کہیں سے کیلے کے چھلکے مل جاتے میں انہیں وہاں سے اٹھا کر لاتا اور دھو ککر صاف کرتا اور پھر کھا لیتا۔ میرے چوبیس گھنٹے کایہ کھانا ہوتا تھا میں نے پورا سال چھلکے کھا کر گزارا مگر اپنا سبق ناغہ نہ کیا۔شاہ عبدالقادر رائے پوری فرماتے ہیں کہ جب میں دارالعلوم میں حاضرہوا تو اس وقت کلاس کے داخلے بند ہو چکے تھے۔ ناظم تعلیمات نے انکار کر دیا کہ ہم آپ کو داخلہ نہیں دے سکتے‘ میں نے ان سے گزارش کی کہ حضرت آخر کیا وجہ ہے؟