حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں جب دوران سال میرے عزیز و اقارب کے خطوط آتے تھے تو میں ڈر کے مارے وہ خط ہی نہیں پڑھتا تھا بلکہ ان کو مٹکے میں رکھ دیتا تھا‘ سوچتا تھا اگر کوئی خوشی کی خبر ہو گی تو گھر جانے کو دل کرے گا اور اگر کوئی غم کی خبر ہو گئی تو پڑھائی میں دل نہیں لگے گا جس کی وجہ سے میں علم سے محروم ہو جاؤں گا۔
میں وہ خطوط جمع کرتا رہتا تھا اور سال کے آخر میں شعبان کے شروع میں اپنے دارالعلوم کاامتحان دے کر فارغ ہو جاتا تو فارغ ہونے والے دن میں سارے خطوط نکالتا‘ انہیں پڑھتا اور ان کی فہرست بناتا‘ خوشی کی خبر والے خطوط کی علیحدہ فہرست بناتا‘ پھر میں اپنے گاؤں آتا‘ خوشی کی خبر والوں کو میں مبارک باد دیتا اور جن کو غم ملا ہوتا تھا ان کے سامنے تسلی و تشفی کے چند الفاظ کہہ دیتا تھا‘ اس طرح لوگ مجھ سے خوش ہو جاتے کہ اس نے سارا سال ہماری بات یاد رکھی لیکن ان کو کیا پتہ کہ ان کا حخط ہی اس وقت پڑھا ہوتا تھا تو جن حضرات نے دنیا میں عظمتیں پائیں انہوں نے علم حاصل کرنے یں ایسی یکسوئی دکھائی مگر آج کے طالب علم کو کتاب کے علاوہ خارجی باتوں کا سننے کا زیادہ شوق ہے۔ چنانچہ جب تکرار کرنے بیٹھتے ہیں تو دو باتیں سبق کی اور تین باتیں باہر کی کرتے ہیں حتیٰ کہ کتاب پڑھتے ہوئے ملکوں کے فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کو علم سے محروم کرنا چاہتا ہے لہٰذا باتوں میں لگا دیتا ہے۔حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں جب دوران سال میرے عزیز و اقارب کے خطوط آتے تھے تو میں ڈر کے مارے وہ خط ہی نہیں پڑھتا تھا بلکہ ان کو مٹکے میں رکھ دیتا تھا‘ سوچتا تھا اگر کوئی خوشی کی خبر ہو گی تو گھر جانے کو دل کرے گا اور اگر کوئی غم کی خبر ہو گئی تو پڑھائی میں دل نہیں لگے گا جس کی وجہ سے میں علم سے محروم ہو جاؤں گا۔















































