حضرت پیر مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی نے ایک تاریخی واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ محمد بن قاسم کی کیا عمر تھی‘ 17 سال آج سترہ سال کے بچے کو گھر کا سربراہ بنا دیں تو وہ گھر کو ٹھیک طرح سے چلا نہیں سکتا اور وہ سترہ سال کابچہ کمانڈر انچیف بنا ہوا ہے اور فوج کو لے کر جا رہا ہے کہاں؟ جہاں راجہ داہر کی منظم حکومت تھی۔ میں نے سندھ میں وہ میدان دیکھا جہاں راجہ داہر اور محمد بن قاسم کی لڑائی ہوئی تھی‘
میں اس کی وسعتوں کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا اس وقت میری عجیب کیفیت تھی‘ میں نے کہا کہ یہ نوجوان کہاں سے چلا اس کے ساتھ کوئی تربیت یافتہ فوج نہیں تھی‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے بلکہ حجاج بن یوسف نے اسے بلا کر کہہ دیا کہ میری فوج مختلف محاذوں پر مصروف کار ہے مگر مجھے یہ بات پہنچائی گئی ہے کہ ہماری کچھ عورتیں آرہی تھیں راجہ داہر کے ڈاکوؤں نے قافلے کو لوٹ لیا ایک لڑکی نے کہا مجھے بچاؤ‘ مجھے بچاؤ‘ چنانچہ محمد بن قاسم نے Cornernee lingsکے نوجوانوں کو اکٹھا کیا‘ یہ پروفیشنل فوجی نہیں تھے‘ یہ ایمان و جذبہ کے گھوڑے پر سوار ہوئے‘ وہ نوجوان اکٹھے ہوئے اورانہوں نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں‘ کتابوں میں لکھا ہے کہ محمدبن قاسم کے ذہن میں یہ بات اتنی سمائی ہوئی تھی کہ بیٹھے بیٹھے چونک اٹھتا تھا اور کہتا تھا ’’لبیک یا اختی‘ لبیک یا اختی‘‘ میری بہن میں حاضر ہوں‘ میری بہن میں حاضر ہوں‘ یہ چند نوجوانوں کی جاعت وہاں پہنچی اور راجہ داہر کی لوہے میں ڈوبی ہوئی فوج کے چھکے چھڑا دیئے پھر یہی نہیں کہ اس کو کنٹرول کر لیا بلکہ اس کو کنٹرول کر کے اپنی سیکنڈ لائن کے ہاتھ میں اس کی کمان دے دی‘ خود آگے مارچ کر لیا‘ خود کنٹرول کرنا کچھ اور چیز ہوتی ہے مگر اتنی خود اعتمادی ہونا کہ اس کو سیکنڈ لائن کے حوالے کر دیا او رپھر آگے چلتے چلتے سندھ سے لے کر ملتان تک اسلام کا پرچم لہراتا رہا۔
آج ہمارے نوجوانوں کے اندر اگر یہ شوق ترقی کر جائے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمای طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی‘ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم محنت کو اپنائیں لیکن تن آسانی کی زندگی کامیاب زندگی نہیں ہے کامیاب زندگی ہمیشہ محنت‘ لگن اور مجاہدے کی زندگی ہوا کرتی ہے۔















































