ہمارے کالج میں اسامیات کے ایک پروفیسر تھے‘ ان کی بیٹی نے میٹرک کاامتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا‘ بیٹی کے دل میں شوق تھا کہ لیڈی ڈاکٹر بنوں‘ والد نے کہا کہ کالج میں مخلوط تعلیم ہے اسے میں پسند نہیں کرتا کہ میری بیٹی بھی وہیں پڑھے‘ جھنگ میں اس وقت لڑکیوں کا سائنس کالج نہیں تھا‘ فقط آرٹس کا تھا‘ سائنس کی کلاس نہیں تھی اس لڑکی نے کہا ابو میں پڑھنا چاہتی ہوں۔
باپ نے کہا کہ پرائیویٹ پڑھ لو‘ چنانچہ باپ نے میڈیکل کی ساری کتابیں بیٹی کو لے کر دے دیں اور اس کی بیٹی نے پرائیویٹ امتحان کیلئے تیاری شروع کر دی‘ درمیان میں اسے کہیں کہیں مشکلات پیش آئیں تو اس نے کہا کہ ابو مجھے فلاں چیز نہیں آتی کسی پروفیسر کو کہئے کہ مجھے سمجھا دیں۔ ابو نے کہا کہ میں تو اچھا نہیں سمجھتا کہ کوئی پروفیسر آپ کو پڑھائے اس لڑکی نے کہا کہ ابو آپ مجھے سمجھا دیں۔ آپ اندازہ کیجئے کہ وہ اسلامیات کے پروفیسر اپنی بیٹی کو میڈیکل کے پرابلمز سمجھاتے اور کالج میں جا کر کالج کے پروفیسر سے پوچھتے کہ ان کا جواب کیا ہے؟ اب اسلامیات کے پروفیسر سمجھتے کیا ہوں گے اور سمجھاتے کیا ہوں گے لیکن جو تھوڑا بہت ہنٹ وہاں سے لے کر آتے وہ آ کر بیٹی کو دیتے‘ بیٹی اسے پک کر لیتی حتیٰ کہ بیٹی نے تیاری کی‘ میڈیکل کا پرائیویٹ امتحان دیا اس کے اتنے نمبر آگئے کہ اس نے لاہور میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا جو کہ لڑکیوں کاکالج ہے بعد میں وہ لڑکی لیڈی ڈاکٹر بن گئی۔ہمارے کالج میں اسامیات کے ایک پروفیسر تھے‘ ان کی بیٹی نے میٹرک کاامتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا‘ بیٹی کے دل میں شوق تھا کہ لیڈی ڈاکٹر بنوں‘ والد نے کہا کہ کالج میں مخلوط تعلیم ہے اسے میں پسند نہیں کرتا کہ میری بیٹی بھی وہیں پڑھے‘ جھنگ میں اس وقت لڑکیوں کا سائنس کالج نہیں تھا‘ فقط آرٹس کا تھا‘ سائنس کی کلاس نہیں تھی اس لڑکی نے کہا ابو میں پڑھنا چاہتی ہوں۔















































