حضرت ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ وقت کے بادشاہ نے ان سے کوئی فتویٰ مانگا مگر انہوں نے فتویٰ نہ دیا اسے غصہ آیا اور ان کو قید کر دیا‘ جب تین دن گزرے تو بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا اس وقت ایک ایسا نوجوان جس کی اٹھتی جوانی تھی‘ اس کے چہرے پر نورانیت اور معصومیت کا حسین امتزاج تھا‘ وہ نوجوان زار و قطار رو رہا تھا‘ جس نے بھی اسے دیکھا اس کا دل پسیج گیا اور ہر بندے نے توقع کی کہ بادشاہ سلامت اس طالب علم کی مراد ضرور پوری کریں گے
بادشاہ نے دیکھا تو اس نے بھی وعدہ کیا کہ اے نوجوان! تو کیوں اتنا رو رہا ہے تو ڈر نہیں تو جو بھی کہے گا ہم تیری بات ضرور پوری کریں گے۔ جب اس نے یہ وعدہ کیا تو طالب علم نے فریاد پیش کی کہ بادشاہ سلامت! آپ مجھے قید خانہ میں بھیج دیجئے‘ بادشاہ بڑا حیران ہوا کہ قید خانہ میں جانے کیلئے تو کوئی اس طرح نہیں روتا‘ چنانچہ اس نے پوچھا کہ آپ قید خانہ میں جانے کیلئے اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ طالب علم نے کہا! بادشاہ سلامت! آپ نے میرے استاد کو تین دنوں سے قید خانہ میں بند کر رکھا ہے جس کی وجہ سے میرا سبق قضا ہو رہا ہے اگر آپ مجھے قید میں ڈال دیں گے تو میں قید وبند کی مشقتیں تو برداشت کر لوں گا مگر اپنے استاد سے سبق تو پڑھ لیا کروں گا یو ں پہلے وقتوں میں شاگرد اپنے استاد سے علم حاصل کیا کرتے تھے جب کہ آج تو علم دوستی نکلتی جا رہی ہے۔ ہم نے ٹی وی کو دوست بنا لیا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ اس پر تماشے دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرآن کو کھول کر بیٹھنے کی بہت کم فرصت ملتی ہے کئی گھر ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر قرآن کھولا ہی نہیں جاتا۔