حضرت شیخ الہند رحمتہ اللہ علیہ نے تحریک ریشمی رومال کے دوران ارادہ فرما لیا کہ اب میں حرمین شریفین جاتا ہوں ایک دن آپ دارالعلوم دیوبند میں چارپائی پر بیٹھے دھوپ میں زمین پر پاؤں رکھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے ان دنوں علامہ محمد انور شاہ کشمیری حضرت کی عدم موجودگی میں بخاری شریف پڑھاتے تھے اس دوران ان کی نظر حضرت پر پڑی‘ جب درس دے کر تھک گئے تو طلباء سے فرمایا کہ آپ تھوڑی دیر بیٹھیں میں ابھی آتا ہوں۔
انہوں نے درس کو موقوف کیا اور دارالحدیث سے باہر نکل کر سیدھے حضرت کے پاس آ کر ان کے قدموں میں بیٹھ گئے اس کے بعد حضرت سے عرض کرنے لگے حضرت! پہلے آپ یہاں تھے جب ہمیں ضرورت پڑتی تھی تو ہم آپ کی طرف رجوع کرتے تھے آپ نے یہاں سے ہجرت کا ارادہ فرما لیا ہے اس طرح تو ہم بے سایہ ہو جائیں گے‘ علامہ انور شاہ کشمیری نے یہ الفاظ کہے اور رونا شروع کردیا حتیٰ کہ انہوں نے بچوں کی طرح بلکنا شروع کر دیا‘ حضرت شیخ الہند نے انہیں تسلی کی بات کہی اور فرمایا انور شاہ ہم تھے تو آپ ہماری طرف رجوع کرتے تھے اور جب ہم چلے جائیں گے تو پھر لوگ علم حاصل کرنے کے لئے تمہاری طرف رجوع کیا کریں گے چنانچہ شاہ صاحب کو اس طرح کی تسلی کی باتیں کر کے واپس بھیج دیا۔ جب شاہ صاحب چلے گئے تو حضرت شیخ الہند کے اپنے دل میں خیال آیا کہ ان کو تو اپنے استاد کی دعاؤں کی اتنی قدر ہے اور آج میں اتنے بڑے کام کیلئے جا رہا ہوں لیکن آج میرے سر پر تو استاد کا سایہ نہیں ہے جنکی دعائیں لے کر چلتا‘ چنانچہ یہ سوچتے ہی ان کو حضرت نانوتوی کا خیال آیا اور طبیعت میں رقت طاری ہوئی لہٰذا وہیں سے اٹھے اور سیدھے حضرت نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کے گھر گئے دروازے پر دستک دی اور ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر آواز دی اماں جی!
میں محمود حسن ہوں اگر حضرت نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کے جوتے گھر میں پڑے ہیں تو وہ بھجوا دیں چنانچہ اماں جی نے ان کے جوتے ان کے پاس بھیج دیئے۔ حضرت شیخ الہند نے اپنے استاد کے جوتے اپنے سر پر رکھے اور اللہ رب العزت سے دعا کی اے اللہ! آج میرے استاد سر پر نہیں ہیں میں ان کے جوتے سر پر رکھے بیٹھا ہوں‘ اے اللہ! اس نسبت کی وجہ سے تو میری حفاظت فرما لینا اور مجھے اپنے مقصد میں کامیاب فرما دینا تو استادوں کی قدر اس وقت آتی ہے جب دیکھنے کیلئے فقط ان کے جوتے باقی رہ جاتے ہیں۔