ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’ مشکل وقت آیا تو سب نے ہی آنکھیں پھیر لیں‘‘ اب میرا ’’گول ‘‘ کیا ہے ؟ سعید اجمل نے واضح اعلان کر دیا

datetime 18  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( آن لائن ) قومی کرکٹ ٹیم کے آف اسپنر سعید اجمل نے کہ ہے کہ ساری توجہ اور فوکس پاکستان سپر لیگ پر ہے ، کوشش ہوگی کہ پی سی ایل میں عمدہ کارکردگی دکھا کر وہ دوبارہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں جگہ سنا سکوں ،’میں بالکل مایوس نہیں ہوں۔ میں نے پاکستان کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے اس پر میں بہت خوش ہوں تاہم جب میرا بولنگ ایکشن صحیح ہونے لگا تو مجھے کرکٹ کھیلنے کو نہ مل سکی۔ مجھے تنہا چھوڑدیا گیا اور جو سپورٹ مجھے ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کو ایک انٹرویو میں آف اسپنر نے کہا کہ اس سال میں نے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں اور میں پرامید ہوں کہ مجھے دوبارہ پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملے گا۔ میری نظریں پاکستان سپر لیگ پر ہیں کہ اس میں اچھی کارکردگی دکھا کر دوبارہ پاکستانی ٹیم میں آسکوں۔
‘سعید اجمل کو اس بات کا گلہ ہے کہ مشکل وقت آیا تو سب نے ہی آنکھیں پھیر لیں۔جب میرا بولنگ ایکشن صحیح ہونے لگا تو مجھے کرکٹ کھیلنے کو نہ مل سکی۔ مجھے تنہا چھوڑدیا گیا اور جو سپورٹ مجھے ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔’پاکستان کرکٹ بورڈ نے یقیناً میرے بولنگ ایکشن پر کام کیا اور اخراجات بھی اٹھائے جس پر میں اس کا شکرگزار ہوں لیکن جب میرا بولنگ ایکشن صحیح ہونے لگا تو مجھے کرکٹ کھیلنے کو نہ مل سکی۔ مجھے تنہا چھوڑدیا گیا اور جو سپورٹ مجھے ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔‘’پرانے دوست تو میرے ساتھ رہے لیکن کرکٹ کی دنیا کے دوست احباب سب اپنے اپنے کاموں میں لگے رہے اور سب نے مجھ سے آنکھیں پھیرلیں۔‘کرکٹ کے میدان میں اپنی مسکراہٹ کے ساتھ زندہ دل کرکٹر کے طور پر پہچانے جانے والے سعید اجمل موجودہ صورتحال میں حوصلہ ہار کر میدان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔’میں ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلا ہوں۔ بیک فٹ پر نہیں کھیلا۔ میں آج بھی خود کو ذہنی طور پر بہت مضبوط سمجھتا ہوں۔
اگر میں سمجھوں گا کہ میں پیچھے رہ گیا ہوں تو خود ہی کرکٹ کو خیرباد کہہ دوں گا۔‘’جہاں تک پاکستان کرکٹ بورڈ نے مجھے رخصت کرنے کی بات کی تھی وہ باقاعدہ طور پر مجھ سے نہیں کی گئی تھی۔ فی الحال میرا دل نہیں کررہا کرکٹ چھوڑنے کو۔‘میں ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلا ہوں۔ بیک فٹ پر نہیں کھیلا۔ میں آج بھی خود کو ذہنی طور پر بہت مضبوط سمجھتا ہوں۔ اگر میں سمجھوں گا کہ میں پیچھے رہ گیا ہوں تو خود ہی کرکٹ کو خیرباد کہہ دوں گا’یہ میرے لیے بڑے دکھ کی بات تھی کیونکہ اس وقت میں ورلڈ نمبر ایک بولر تھا اور میں ورلڈ کپ میں بہت کچھ کر دکھانے کی تیاری کر رہا تھا۔ میرے علاوہ کئی دوسرے بولرز بھی مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آئے لیکن بعد میں وہ سب ایک ایک کرکے کلیئر ہوتے چلے گئے.

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…