مقبوضہ بیت المقدس (این این آئی) اسرائیلی کابینہ کی جانب سے حال ہی میں منظور کئے گئے لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے پر پابندی کے متنازع قانون پر صہیونی انتظامیہ نے عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ صہیونی ریاست کے نسل پرستانہ اور اسلام دشمن قانون کا پہلا شکار 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہر اللد کی مسجد کے موذن بنے ہیں جنہیں گزشتہ روز نماز فجر کی اذان لاؤڈ سپیکر پر دینے کے جرم میں 750 شیکل جرمانہ کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے اللد شہر میں قائم ایک مسجد کے موذن کو کیے گئے جرمانہ کے واقعے کو غیرمعمولی کوریج دی گئی ہے۔اگرچہ مذکورہ متنازع قانون ابھی تک پارلیمنٹ میں زیربحث ہے اور اسے منظور نہیں کیا گیا مگر اس کی منظوری سے قبل ہی اس پرعملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔ اسرائیل کے عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اللد شہر کی اسرائیلی بلدیہ نے شنیر کالونی کی جامع مسجد کے موذن الشیخ محمود الفار کو جرمانہ گذشتہ روز نہیں بلکہ گذشتہ جمعرات کی اذان فجر کے موقع پر کیا تھا۔
انہوں نے فجر کی اذان لاؤڈ اسپیکر پر دی تھی جس کے بعد انہیں بلدیہ کے دفتر میں طلب کرکے جرمانہ ادا کرنے کا نوٹس دیا گیاتھا۔عبرانی اخبار کی ویب سائٹ پر پوسٹ خبر میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی مسجد کے موذن الشیخ محمود الفار کو دیئے گئے جرمانے کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اذان سے یہودی آباد کاروں کے آرام وسکون میں خلل پیدا ہوتا ہے،آ رام و سکون میں خلل کے انسداد کیلئے پارلیمنٹ نے کئی سال قبل بھی ایک قانون منظور کر رکھا ہے۔ اس لئے اس قانون کے تحت مسجد میں بلند آہنگ اذان دینے پر پابندی عاید کی جاتی ہے۔ادھر اسرائیلی ریڈیو نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس اذان پر پابندی سے متعلق متنازع قانون میں ترمیم پر غور کررہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک تجویز یہ بھی دی گئی ہے کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان رات 23 بجے سے صبح 7 بجے تک دی جاسکتی ہے۔دن کے بقیہ اوقات میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کی جائیگی۔ ریڈیو رپورٹ کے مطابق صہیونی حکومت اذان پر پابندی سے متعلق قانون میں زیادہ سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تاکہ اعلیٰ عدالت سے اس قانون کومسترد نہ کیا جاسکے۔
اذان پر پابندی کے باوجود اسرائیل کی مسجد میں اذان گونج اٹھی۔۔۔پھر کیا ہوا ؟
22
نومبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں