اسلام آباد (این این آئی) سینٹ کو بتایاگیا ہے کہ گوادر میں بھی ایک ایکسپورٹ پراسیسنگ زون قائم کیا جارہا ہے ٗ ایل پی جی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ہے ‘ قواعد کے تحت یہ نام فراہم نہیں کئے جاسکتے‘ جولائی 2011ء سے جون 2016ء تک 55 ارب روپے کے قرضے پھنسے ہوئے ہیں ٗ انڈر انوائسنگ کا پتہ چل جائے تو تین گنا جرمانہ کیا جاتا ہے‘ قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ منگل کو وقفہ سوالات کے دوران وزیر برائے صنعتیں و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز اتھارٹی نے کراچی‘ سیالکوٹ‘ گوجرانوالہ‘ رسالپور‘ سینڈک اور دودر میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز قائم کئے ہیں۔ گوادر میں بھی ایک ایکسپورٹ پراسیسنگ زون قائم کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کی ترقی و انصرام ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز اتھارٹی کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے مالی سال کے دوران 508.895 ملین امریکی ڈالر کی برآمدات کی گئی ہیں‘ اس ادارے کے قیام سے 2014-05ء تک 5899.162 ملین ڈالر کی برآمدات کی گئی ہیں۔ سکھر میں بھی زون قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کے لئے سو ایکڑ اراضی کے حصول کے لئے بات چیت ہو رہی ہے‘ زمین ملتے ہی کام کا آغاز کردیا جائے گا۔ فیصل آباد میں بھی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے۔ نجی کمپنی یہ زون تعمیر کرے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سال 2015-16ء میں 516.389 ملین ڈالر کی برآمدات کی گئی ہیں۔ وزیر خزانہ کی طرف سے وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بتایا کہ ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے کی اہمیت کے حوالے سے حکومت مالی سال 2013-2014ء میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لئے نئے اقدامات کا آغاز کیا تھا۔ اس عمل سے اقتصادی سرگرمیوں سے متعلق خاطر خواہ معلومات حاصل ہوئی ہیں جن سے ٹیکس نادہندگان کے اخراجات اور اثاثہ جات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لئے ایف بی آر میں ایک نیشنل ڈیٹا ویئر ہاؤس قائم کردیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار تیسرے فریق کے ذریعے حاصل کئے گئے ہیں جیسا کہ موٹر وہیکل رجسٹرنگ اتھارٹیز‘ تعلیمی ادارے‘ صوبائی حکومت سے غیر منقولہ جائیداد کی خریداری بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں ٹیلی کمیونیکیشنز کمپنیاں‘ ایس این جی پی ایل‘ آٹو موبائل کمپنیاں‘ انشورنس کمپنیاں‘ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں‘ سیل فون کمپنیاں‘ بنکنگ کمپنیاں‘ نادرا‘ پی ایم ڈی سی‘ بحریہ ٹاؤن‘ پاکستان انجینئرنگ کونسل اور ودہولڈنگ ٹیکس کے گوشوارے۔ تیسرے فریق کی معلومات کی بنیاد پر 5.6 ملین بنکوں کی مالی ترسیلات کے اعداد و شمار اکٹھے کئے گئے۔ اس معلومات کی بنیاد نان این ٹی این ہولڈرز کو 465,165 نوٹس 30 جون 2016ء تک جاری کئے گئے ہیں جن کا آغاز 2013ء میں متعارف کئے گئے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں 32,505 انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے گئے جن سے تیس جون 2016ء تک 1,769 ملین روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس نادہندگان سے 36,473 ملین ٹیکس ڈیمانڈ میں سے 30 جون 2016ء تک 921.22 ملین روپے وصول کئے گئے ہیں۔ ایک ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حکومت غریب طبقہ پر ٹیکس کو کم کرنا چاہتی ہے اور بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس میں توازن لانا اور غریب طبقے پر ٹیکس کم سے کم کرنا چاہتی ہے۔ زیادہ زور ڈائریکٹ ٹیکسیشن پر دیا جارہا ہے۔وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بتایا کہ ایل پی جی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس بھی ہے۔ ریجن میں بھی یہ ٹیکس لگ رہے ہیں اور بین الاقوامی پریکٹس بھی یہی ہے۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ایل پی جی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ہے 100 فیصد نہیں ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ نیشنل بنک سے قرضہ حاصل کرنے والے افراد؍کمپنیوں کے ناموں کا معاملہ نجیٖ؍ذاتی معلومات کے زمرے میں آتا ہے اور بنکنگ کمپنیز ایکٹ آرڈیننس 1962ء کے تحت انہیں تحفظ حاصل ہے اور کوئی بھی بنک یا مالی ادارہ اپنے صارفین سے متعلق کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کرتا اور رازداری پر سختی سے کاربند رہتا ہے۔ نیشنل بنک کے 55 ارب کے نان پرفارمنگ قرضے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جولائی 2011ء سے جون 2016ء تک کل فراہم کئے گئے قرضوں میں سے 271 بلین روپے کے قرضے واجب الادا ہیں جن میں ریگولرقرضے 216 ارب روپے اور پھنسے ہوئے 55 ملین روپے کے قرضے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران فراہم کئے گئے قرضوں کی کوئی رقم معاف نہیں کی گئی ہے۔ یہ قرضے ہرگز معاف نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ ریکور کئے جانے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سوئٹزرلینڈ سے معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا۔ او ای سی ڈی کے پلیٹ فارم سے 90 کے قریب ممالک سے معلومات شیئر کی جائیں گی۔ معلومات خودکار نظام کے تحت مل سکیں گی۔ اب شفاف نظام کا دور آرہا ہے معلومات چھپانے کا دور ختم ہو رہا ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ حکومت نے ملک میں انڈر انوائسنگ روکنے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ سارے ممالک چاہتے ہیں کہ انڈر انوائسنگ کا خاتمہ ہو‘ کسٹمز ایکٹ 1969ء کی دفعہ 25 کے تحت برآمد و درآمد شدہ اشیاء کی قدر و قیمت وضع کردہ ہے جو کہ ڈیوٹی اور محصولات کے حساب کتاب سے ہے۔ انڈر انوائسنگ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کسٹمز ایکٹ کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیو ایشن کو خصوصی معاملات میں قدر و قیمت کے احکامات جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جوکہ مکمل تفتیش اور انکوائری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر انڈر انوائسنگ کا پتہ چل جائے تو تین گنا جرمانہ کیا جاتا ہے‘ قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ ملکی قرضوں کی 31 مئی 2016ء تک کل رقم 13430.8 ارب روپے جبکہ غیر ملکی قرضے کی کل رقم 5834.1 ارب روپے ہے۔ سال 2016-17ء کے دوران حکومت کی جانب سے لئے جانے والے ملکی قرضے کا تخمینہ 1589.9 ارب روپے ہے۔ اگلے دو مالی سالوں کے دوران حاصل ہونے والے غیر ملکی قرضوں کا تخمینہ 9743.63 ملین ڈالر ہے اور ادائیگی 8159 ملین ڈالر ہے۔ وزیر برائے صنعتیں و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ صنعتوں کا شعبہ کافی حد تک صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے۔ بیروزگاری ختم کرنے کا واحد طریقہ سمال اور میڈیم کاروبار کی ترقی ہے۔ خیرپور ‘ نوشہرو فیروز میں سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری لگے گی اس کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں‘ دیہی علاقوں میں صنعتوں کے قیام کے لئے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت کا کردار اب ڈاکخانے کا ہے۔ سرمایہ کار کے مسائل پٹرولیم‘ ایف بی آر‘ پانی و بجلی‘ وزارت خزانہ کے ساتھ ہیں‘ ہم صرف کو آرڈینیٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بلوچستان میں ماربل سٹی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کی پارٹنر شپ میں انڈسٹریز کے حوالے سے پالیسی نہیں ہے۔ وزیر برائے صنعتیں و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ وزارت صنعت و پیداوار کے زیر استعمال موجودہ وقت میں دس گاڑیاں فعال حالت میں ہیں۔ گریڈ 20 اور گریڈ 22 کے افسران گاڑی استعمال نہیں کر سکتے۔ چوہدری تنویر نے مطالبہ کیا کہ یہ سوال متعلقہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔ افسران گاڑیوں کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایک گاڑی وفاقی وزیر اور ایک پارلیمانی سیکرٹری کے پاس ہے۔ بے شک یہ سوال کمیٹی کو بھجوایا جائے کوئی اعتراض نہیں جس پر یہ سوال متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔