لندن(آئی این پی) برطانوی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر کی شہادت کے بعد سے فیس بک نے برہان وانی سے متعلق درجنوں پوسٹوں اور اکانٹس کو ڈیلیٹ کردیا ہے۔ برطانوی روزنامے گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ صحافیوں، مقامی اخبارات کے پیجز اور دیگر افراد کی جانب سے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی سے متعلق نہ صرف تصاویر اور ویڈیوز پوسٹس بلکہ اکانٹس تک کو فیس بک کی جانب سے ڈیلیٹ کیا گیا ہے۔برہانی وانی کوبھارتی فوج نے 8 جولائی کو شہیدکیا تھا جس کے بعد سے ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں اب تک درجنوں کشمیری شہری شہید اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ وادی میں کرفیو نافذ ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے موبائل فون کوریج، لینڈ لائن اور انٹرنیٹ سروسز کو بھی معطل کردیا گیا تھا، جبکہ اخبارات کی اشاعت پر تین روز کے لیے پابندی عائد کی گئی جسے منگل کو اٹھا لیا گیا تاہم ایڈیٹرز نے حکومت کی جانب سے معذرت تک اخبارات کو شائع کرنے سے انکار کردیا ہے۔کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ فیس بک کی جانب سے اس حوالے سے سنسر شپ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔گارڈین سے بات کرتے ہوئے کشمیری بلاگر زرگر یاسر نے کہا یہاں اب کوئی اخبار نہیں اور صرف 2 نیوز چینلز ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کا فیس بک اکانٹ ایک ہفتے سے بلاک ہے جبکہ کچھ پوسٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے اور یہ سب اس وقت ہوا جب انہوں نے برہانی وانی سے متعلق ایک بلاگ کا لنک پوسٹ کیا۔انہوں نے مزید بتایا جب کوئی خبر نہ ہو تو عام طور پر ہم اطلاعات کے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، اس طرح ہم کم از کم ایک دوسرے سے بات تو کرپاتے ہیں، اپنے دوستوں اور رشتے داروں کی خیریت معلوم ہوجاتی ہے، مگر فیس بک نے میرا اکانٹ بلاک کردیا ہے، اب میں کیا کروں؟ایک مقامی صحافی مبشر بخاری کے مطابق جب میں گزشتہ روز دفتر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ فیس بک نے ایک ویڈیو ہٹا دی ہے جو ہم نے پوسٹ کی تھی، اس ویڈیو میں حریت رہنماسید علی گیلانی کو برہانی وانی کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، اس سے قبل ہمارے فیس بک پیج پر کبھی کچھ ڈیلیٹ نہیں کیا گیا تھا۔سوشل میڈیا کمپنیاں جیسے فیس بک پر حکومتوں کی جانب سے مخالف رائے کو محدود کرنے کا دبا ہوتا ہے، تاہم جب وہ حد سے باہر نکل جاتی ہیں تو انہیں تنقید کا بھی سامنا ہوتا ہے۔