اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ طالبان سے مذاکرات کب دوبارہ شروع ہوں گے لیکن پاکستان اس مقصد کیلئے کوششیں جاری رکھے گا تاہم مذاکرات اب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے ہیں۔وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بھارت سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے، کلبھوشن یادیو کے خلاف ثبوت مکمل ہونے پر دوبارہ کارروائی شروع ہوگی ٗخارجہ پالیسی کی تیاری میں امریکی طرز پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کوساتھ لے کرچلتے ہیں ٗلائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہیں چاہتے ٗ کچھ افغان طالبان دھڑے امن مذاکرات کے حامی اور کچھ مخالف ہیں، مستقبل میں امن مذاکرات انتہائی کٹھن ہوں گے ٗبنگلادیش میں سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں دیے جانے کے معاملے پر ہمیں تحفظات ہیں ۔وہ پیر کو مدیران اور اینکر پرسنز کو خارجہ پالیسی کے تمام تر پہلوؤں اور ہمسایہ و دیگر ممالک سے تعلقات کے حوالہ سے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے تناظر میں پاکستان کی حکمت عملی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دے رہے تھے اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور ثقافتی ورثہ سینیٹر پرویز رشید، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی اور خارجہ سیکرٹری اعزاز احمد چوہدری بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ تمام جمہوری ملکوں میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے خارجہ پالیسی بنانے میں شامل ہوتے ہیں ٗہم بھی امریکہ کی طرح سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر چلتے ہیں،کشمیر کے معاملے پر بھارت سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے ،لائن آف کنٹرول پر بھی کشیدگی نہیں چاہتے ۔انہوں نے کہاکہ کلبھوشن یادیو کا نیٹ ورک مکمل طورپر بے نقاب کرنے کی کوشش میں ہیں ٗگرفتار’را ایجنٹ‘ کے خلاف ثبوت مکمل ہونے پر دوبارہ کارروائی شروع ہوگی۔مشیر خارجہ نے کہا کہ بنگلادیش میں سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں دیے جانے کے معاملے پر ہمیں تحفظات ہیں، انسانی حقوق کے اداروں نے بھی ان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ایک سوال پر سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کا طالبان پر کچھ اثر و رسوخ رہا ہے تاہم جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا ہے تب سے زیادہ تر طالبان افغانستان منتقل ہو گئے اور ان کی لڑائی کی زیادہ تر صلاحیت اب افغانستان کے اندر ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ طالبان سے مذاکرات کب دوبارہ شروع ہوں گے لیکن پاکستان اس مقصد کیلئے کوششیں جاری رکھے گا تاہم مذاکرات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے ہیں۔ سرتاج عزیز نے کہاکہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے سرحدی انتظامات کرنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے، دہشت گردی کے انسداد کیلئے دونوں اطراف کی طرف سے کی جانے والی کوششیں بہت اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی کا پہلے ہی جائزہ لے چکا ہے اور اب افغان امور میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کے افغان گروپوں میں کوئی پسندیدہ نہیں ہیں۔