جمعہ‬‮ ، 17 جنوری‬‮ 2025 

کراچی میں کون جیتے گا؟سب پتہ چل گیا

datetime 4  دسمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوز ڈیسک) کراچی میں بلدیاتی انتخابات کیلئے مہم نصف شب ختم ہوگئی۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر میں انتہائی پرامن انتخابی مہم کا کریڈٹ تمام سیاسی جماعتوں کو دیاجانا چاہیئے۔ اب عوام کو فیصلہ کرنے دیاجائے کہ فاتح کون ہوگا اور میئر کون بنے گا۔ سخت حفاظتی انتظامات میں انتخابات، نتائج قبول کئے جانے کو جواز فراہم کریں گے۔ لیکن کل ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا ممکنہ نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟ آیا کوئی واضح فاتح ہوگا یا منقسم مینڈیٹ سامنے آئے گا؟ جنگ رپورٹر مظہر عباس کے مطابق گزشتہ 36برسوں میں میئر کا عہدہ جماعت اسلامی نے تین اور ایم کیوایم نے دو بار جیتا۔ لیکن ان تین انتخابات جن میں جماعت اسلامی نے کامیابی حاصل کی۔ ایم کیوایم 1979اور 1983میں تشکیل نہیں پائی تھی اور 2001میں اس نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس بار دوڑ میں ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد اور پیپلزپارٹی نمایاں سیاسی جماعتیں ہیں۔ 6اضلاع شرقی، غربی، وسطی، جنوبی، کورنگی اور ملیر کی 209یونین کونسلوں کے لئے مذکورہ پارٹیوں کے علاوہ ایم کیوایم (حقیقی) ، جے یو آئی(ایف) ، اے این پی، مسلم لیگ (ن) ، سنی تحریک اور ایک نئی جماعت راہ حق بھی میدان میں ہیں جنہوں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ بھی کی ہے۔ گو کہ مبصرین ایم کیوایم کا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ براہ راست مقابلہ دیکھ رہے ہیں لیکن عام اتفاق رائے یہی ہے کہ ایم کیوایم 5دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں واحد بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ پیپلزپارٹی لیاری، کیماڑی اور ملیر میں حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کراچی کے تناظر میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد بڑا دلچسپ ہے۔ تحریک انصاف کراچی کے صدر علی زیدی نے جو کچھ کہا ہے وہ اگر درست ہے اور نہ ماننے کی بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ وہ یہ کہ 209یونین کونسلوں میں 153امیدوار تحریک انصاف کے نشان ”بلے“ پر انتخاب لڑرہے ہیں اور باقی کا نشان جماعت اسلامی کا ترازو ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی جانب سے انتخاب لڑنے والوں میں سے اکثر کا انتخابی نشان ”بلا“ ہی ہے۔ علی زیدی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دونوں جماعتوں نے نشستیں اور نشان دونوں شیئر کیئے ہیں۔ لیکن لگتا ہے پی ٹی آئی کو اردو بولنے والوں کے علاقوں سے امیدواروں کے چناو میں مشکلا ت کا سامنا رہا۔ جہاں اس نے اپنا نشان برقرار رکھتے ہوئے اپنا حصہ جماعت اسلامی کو دے دیا۔ جماعت اسلامی کی طاقت اس کی تنظیم اور بلدیاتی اداروں میں کام ہے لیکن اسے سیاسی طورپر الجھنوں کا سامنا ہے۔ گو کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کراچی کو استنبول بنانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کی اپیل ووٹرز کو بھی متاثر کرسکےگی یا نہیں۔ تاہم ساتھ ہی امیر جماعت اسلامی نے لبرل سیاسیت کو مسترد کردیا ہے۔ یہ خاصی متضاد بات ہے کیونکہ جماعت اسلامی کا اتحاد کسی لبرل جماعت کے ساتھ نہیں ہے اور اس کے اکثر امیدوار تحریک انصاف کے نشان پر انتخاب لڑرہے ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں نے مئی 2013کے عام انتخابات اور این اے 246کراچی پر ضمنی انتخاب میں علیحدہ انتخاب لڑ کر دیکھ لیا کہ وہ کہاں کھڑی ہیں۔ این اے 246کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ دونوں پارٹیوں کیلئے چشم کشا رہا لیکن یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ ایم کیوایم کو تمام حلقوں میں اب بھی پہلی جیسی حمایت حاصل ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد نے گزشتہ چند ہفتوں میں بڑی محنت کی ہے اور وہ اپنے حامیوں کو مایوس نہیں کریں گے۔ عمران خان کھل کر دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ کراچی کا بلدیاتی انتخاب جیت لیں گے اور 6دسمبرکو جشن فتح منانے آئیں گے۔ لیکن اپنی نجی گفتگو میں وہ اتنے پرامید دکھائی نہیں دیئے۔ لیکن ایم کیوایم آج کہاں کھڑی ہے اور کتنی نشستیں جیت لے گی؟ زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں ایم کیوایم اپنے بارے میں تاثر کے باوجود واحد بڑی بن کر ابھرے گی۔ اپنے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو عزیز ا?باد پر رینجرز کے چھاپے کے ایک ماہ بعد اسی علاقے سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ایم کیوایم نے 30ہزار کے مقابلے میں 95ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس بار ایم کیوایم کیلئے آزمائش ہوگی کہ وہ کس قدر ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز تک لاتی ہے۔ پارٹی کے بعض اہم رہنماوں کی غیر موجودگی اور شہر میں جاری ااپریشن کی وجہ سے اس کے رہنماوں کو مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب ایم کیوایم کو 25ارکان قومی اسمبلی اور 51ارکان سندھ اسمبلی کی صورت میں مخالفین پر فوقیت بھی حاصل ہے۔ دوسرے اس کی تنظیمی صلاحیتیں ہیں جو جماعت اسلامی سے کسی قدر کم نہیں۔ تیسرے بلدیاتی اداروں پر اس کی گرفت ہے۔ جس کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں سودا کار یونین کیلئے ریفرنڈم جیتا ، ساتھ ہی وہ اپنے سیاسی دور کے کٹھن مرحلے سے بھی گز رہی ہے۔ سیکڑوں کارکنوں پر سنگین الزامات اور وہ رینجرز کی تحویل میں ہیں۔ ساتھ ہی انتخابی مہم ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری اور اظہار الحسن جیسے موثر رہنما چلارہے ہیں۔ ایم کیوایم ”کلین سوئپ‘ ‘ کرے گی؟ شاید نہیں لیکن کچھ مبصرین کی رائے میں وہ سادہ اکثریت حاصل کرسکتی ہے۔ ایسا ہوا تو موجود ہ حالات میں یہ ان کے لئے اطمینان بخش نتائج ہوں گے۔ حیدرآباد اور میرپورخاص میں بلدیاتی انتخابی کامیابیوں سے ایم کیوایم کا مورال بلند ہوا ہے لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کراچی کے محرکات مختلف ہیں۔ کراچی میں تیسری قوت پیپلزپارٹی نے گزشتہ ایک ہفتے میں اپنی پوزیشن خاص بہتر کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ملیر گئے اور لیاری میں بعض ناراض مقامی رہنماو?ں سے مفاہمت بھی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی کو لیاری کی 15میں سے 8یوسیز جیتنے کی توقع ہے۔ بلدیاتی اداروں میں پیپلزپارٹی روایتی طورپر دوسرا بڑا سیاسی گروپ رہا ہے۔ لیکن جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں اتحاد کے بعد اگر وہ 25فیصد نشستیں جیت لیتی ہے تو یہ کافی ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما سعید غنی اس حد تک پرامید ہیں کہ کارکردگی جماعت اسلامی اور تحریک اانصاف کے اتحادسے بہتر ہوگی۔ ملیر میں وہ واحد بڑے گروپ بن کر ابھرنے کے حوالے سے پر اعتماد ہے۔ اسے تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کے باعث ضلع غربی میں بھی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ تمام تر امکان یہی ہے کہ کل کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پرامن ہوں گے۔ کسی بڑے اپ سیٹ کی توقع نہیں ہے لیکن کون جانتا ہے کہ ” خاموش ووٹر“ کا موڈ کیا ہو۔



کالم



20 جنوری کے بعد


کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…