جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک چلی اور ڈھاکا میں احتجاج شروع ہو گیا‘ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے‘ حسینہ واجد کی حکومت نے کریک ڈائون کیالیکن احتجاج میں اضافہ ہو گیاجس کے بعد بنگالیوں نے پوری دنیا میں احتجاج شروع کر دیا‘ دوبئی میں بھی 20جولائی کوچند درجن بنگالی باہر نکلے اور حسینہ واجد کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی‘ دوبئی میں ہر قسم کے سیاسی احتجاج پر پابندی ہے لہٰذا پولیس آئی اور اس نے مظاہرین کو منتشر کر دیا‘ حکومت نے اس کے بعد سی سی ٹی فوٹیج کے ذریعے 57 لوگوں کی شناخت کی‘ انہیں گرفتار کیا‘ عدالتوں میں پیش کیا اور ججز نے ان میں سے 53 لوگوں کو دس دس سال قید کی سزا دی‘
یہ ایکشن صرف یہاں تک محدود نہ رہا بلکہ دوبئی حکومت نے بنگالیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کر دیا اور نئے لوگوں کے ویزوں پر پابندی لگا دی‘ اس کا یہ نتیجہ نکلا اس کے بعد کوئی بنگلہ دیشی سڑک پر نہیں آیا‘ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ دو سال سے پوری دنیا میں چھوٹے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں‘ دو دن قبل ذلفی بخاری کی قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سامنے بھی مظاہرہ کیا‘30 اکتوبرکو مڈل ٹیمپل کے گیٹ پر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ تک ہو گیا‘ اقوام متحدہ کے دفاتر اور وائیٹ ہائوس کے سامنے بھی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن آپ کو پی ٹی آئی کی طرف سے دوبئی میں کسی مظاہرے کی خبر نہیں ملے گی‘ کیوں؟ کیوں کہ پاکستانی جانتے ہیںہم نے اگر مظاہرہ کیا تو حکومت ہمیں پیک کر کے پاکستان بھجوادے گی اور اس کے بعد ہم کبھی دوبئی واپس نہیں آ سکیں گے۔
میں فطرتاً جمہوری ہوں‘ میں احتجاج اور مظاہروں کو انسان کا بنیادی حق سمجھتا ہوں‘ دنیا جہاں میں لوگ ظلم پر آواز اٹھاتے ہیں لیکن میں اس کے ساتھ ساتھ اس حق کے لیے سڑکیں بند کرنا اور دوسرے انسانوں کو اذیت دینا ناقابل معافی جرم سمجھتا ہوں‘ برطانیہ ہو یا امریکا دنیامیں احتجاج ہوتے ہیں لیکن وہاں لوگ راستے اور سڑکیں بلاک نہیں کر سکتے اگر کوئی یہ غلطی کرے تو پھر ریاست اسے مرونڈا بنا دیتی ہے جب کہ پاکستان میں شہر کے شہر بند کر دیے جاتے ہیں‘ کے پی کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور آٹھ ماہ سے پورا ملک بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں‘ یہ چار مرتبہ اسلام آباد اور ایک بار لاہور بھی بند کرا چکے ہیں‘ گنڈا پور 9 نومبر کو ایک بار پھر کفن باندھنے کا مظاہرہ کریں گے‘ پارٹی 2014ء سے یہ حرکت مسلسل کر رہی ہے چناں چہ ملک دس سال سے مظاہروں کی زد میں ہے اور اس کے نتیجے میں ایک پوری نسل احتجاجی فطرت کے ساتھ پیدا ہو گئی اور اس نسل نے مظاہروں کو کھیل سمجھ لیا ہے‘
سوال یہ ہے اس احتجاج سے آج تک پی ٹی آئی کو کیا فائدہ ہوا؟ عمران خان سوا سال سے جیل میں ہیں اور پارٹی تتر بتر ہے اور ملک کی معاشی اور نفسیاتی چولیں ہل چکی ہیں‘ عوام کا ذہنی سکون بھی ختم ہو گیا ہے‘ حکومت آئے روز انٹرنیٹ بند کر دیتی ہے یا اس کی سپیڈ کم کر دیتی ہے‘ سوشل میڈیا پر فائر وال بھی لگ گئی ہے جس سے لوگوں کی سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ معاشی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے چناں چہ اس احتجاج کا نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ دوبئی میں صورت حال بالکل الٹ ہے‘ وہاں احتجاج کی اجازت نہیں چناں چہ لوگ احتجاج کے بارے میں مکمل لاعلم ہیں‘ وہاں سڑک اور مارکیٹ کسی دن بند نہیں ہوتی لہٰذا لوگوں کا روزگار مسلسل چلتا رہتا ہے‘ آپ اس صورت حال کا ایک اور دل چسپ پہلو بھی دیکھیے‘ 2010ء میں جب عرب سپرنگ آئی اور تیونس‘ مصر اور لیبیا میں احتجاج شروع ہوئے تو ان تینوں ملکوں کے بزنس مین دوبئی شفٹ ہو گئے اور یہ وہاں بیٹھ کر اطمینان سے بزنس کرنے لگے‘
پاکستان اور بنگلہ دیش کے بزنس مین بھی احتجاج کے دنوں میں دوبئی چلے جاتے ہیں اور وہاں تفریح کرتے ہیں یا پھر چھوٹا بڑا بزنس شروع کر دیتے ہیں اور جب حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو واپس آ جاتے ہیں‘ کراچی کے حالات نے بھی دوبئی کی کاروباری صحت میں بہت اضافہ کیا‘ کراچی کے تمام چھوٹے بڑے بزنس مینوں نے اپنے اثاثے اور بچے دوبئی شفٹ کر دیے جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کی آدھی دولت دوبئی چلی گئی‘ آج بھی کراچی میں ایسے درجنوں بزنس مین ہیں جن کے گھر اور فیملیز دوبئی میں ہیں اور یہ لوگ روز صبح کی فلائیٹ سے کراچی آتے ہیں‘ سارا دن دفتر یا کارخانے میں کام کرتے ہیں اور شام کی فلائیٹ پر دوبئی واپس چلے جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ دوبئی میں امن اور لاء اینڈ آرڈر ہے‘ وہاں ان کے اثاثے بھی محفوظ ہیں اور سڑکیں بھی جب کہ پاکستان میں کچھ بھی محفوظ نہیں‘ نہ سڑکیں‘ نہ جان‘ نہ پراپرٹی اور نہ جذبات‘ معاشی استحکام تک موجود نہیں‘ گورنمنٹ کا دماغ اچانک خراب ہوجاتا ہے اورارب پتی ایک ہی رات میں سڑک پر آ جاتے ہیں لہٰذا پھر ایسے ملک میں لوگ سرمایہ کاری کیوں کریں گے؟۔
سوال پھر وہی ہے کیا دوبئی شروع دن سے ایسا تھا‘ جی نہیں‘ 1971ء میں تمام ریاستیں اکٹھی ہوئیں اور انہوں نے مل کر یو اے ای بنایا‘ 1980ء کی دہائی میں مختوم فیملی نے ماڈرن دوبئی کی بنیاد رکھی اور شہر کو دنیا بھر کے بزنس مینوں اور معاشی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا اور یوں یہ شہر گلوبل بزنس ہب بنتا چلا گیا‘ یہ معجزہ کیسے ہوا؟اس کا جواب 8 اصول ہیں‘ میں 20 سال سے دوبئی ائیرپورٹ پر شیخ محمد کے ’’دوبئی کے آٹھ اصول‘‘ دیکھ رہا ہوں‘ سلطان محمد بن راشد نے یہ اصول وضع کر کے ائیرپورٹ سمیت ملک کے اہم مقامات پر لگوا دیے تھے اور ان میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی‘ میں ہر بار ائیرپورٹ پر رک کر یہ آٹھ اصول پڑھتا ہوں‘وہ اصول کیا ہیں؟ دوبئی کا پہلا اصول ہے ہم یو اے ای کا حصہ ہیں‘ اتحاد ہماری بنیاد ہے لہٰذا دوبئی نے آج تک یونین نہیں ٹوٹنے دی‘ یہ یو اے ای کی دوسری ریاستوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘
دوسرا اصول دوبئی کا کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں‘ آج تک دوبئی میں کسی شخص کو قانون سے استثنیٰ نہیں ملا‘ وہ خواہ شاہی خاندان سے ہو یا عام مزدور ہو‘ اس نے اگر جرم کیا تو اسے سزا ضرور ملے گی‘ تیسرا اصول ہم بزنس کیپیٹل ہیں چناں چہ دوبئی میں 40 سال سے کاروباری سرگرمیاں بند نہیں ہوئیں‘ اکنامک پالیسیوں میں بھی تسلسل ہے اور معاشی استحکام بھی‘ چوتھا اصول‘ دوبئی ترقی کے تین ستونوں پر کھڑا ہے‘ حکومتی نظام تیز اور شان دار ہے‘ پرائیویٹ سیکٹر ایکٹو اور فیئر ہے اور حکومت کی کمپنیاں (مثلاً ایمریٹس ائیرلائینز اور ایمریٹس رئیل سٹیٹ) پرائیویٹ کمپنیوں کی سپرٹ سے چل رہی ہیں‘ انہیں خاندان کی جاگیر کی بجائے کاروباری طریقے سے چلایا جا رہا ہے‘ پانچوں اصول معاشرہ لبرل ہے‘ کسی کو کسی پر اپنا مذہب یا عقائد تھوپنے کی اجازت نہیں‘کوئی تبلیغ کر سکتا ہے اور نہ دوسروں کے طرزعمل پر اعتراض‘ چھٹا اصول دوبئی مسلسل معاشی ترقی پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ ہر تین سال بعد کوئی نیا معاشی سیکٹر کھولتا ہے‘ دوبئی آج کل آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کر رہا ہے‘
ساتواں اصول ہم لینڈ آف ٹیلنٹ ہیں‘ دنیا جہاں کے ماہرین اور ٹیلنٹڈ لوگ کسی بھی وقت دوبئی آ سکتے ہیں‘ دوبئی نے 2019ء میں گولڈن ویزا شروع کیا‘ اس سکیم کے تحت دنیا کے تمام ممالک کے کام یاب اور مشہور لوگوں کو دوبئی کا دس سال کا ویزہ مل جاتا ہے اور یہ خاندان سمیت دوبئی آ کر کاروبار کر سکتے ہیں اور رہائش پذیر ہو سکتے ہیں اور آٹھواں اصول ہم مستقبل کی نسلوں کا خیال رکھتے ہیں‘ دوبئی اپنی نسل کو سیاست اور مذہبی منافرت سے دور رکھ رہا ہے چناں چہ یہاں کسی قسم کے احتجاج اور فساد کی اجازت نہیں‘ یہ آٹھ اصول چالیس سال پہلے بنے تھے اور حکومت آج تک ان پر عمل کر رہی ہے‘ ان میں ذرا برابر تبدیلی نہیں آئی‘ آپ کمال بلکہ زوال دیکھیے‘ ہم نے دوبئی کے ان 8 اصولوں سے دس سال پہلے 280دفعات کا آئین بنایا تھا‘ دوبئی نے ان 40 برسوں میں اپنے آٹھ اصولوں پر عمل کے علاوہ کچھ نہیں کیا جب کہ ہم نے 50سالوں میں آئین کاحلیہ بدلنے‘ اس میں ترمیم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا اور ہم اب بھی اس میں تبدیلیاں کر رہے ہیں‘دوسرا ہم نے 50 برسوں میں اس پر عمل کی جسارت نہیں کی لہٰذا دوبئی 40 برسوں میں گلوبل اکنامک ہب بن گیا جب کہ ہم 50 برسوں میں عالمی بھکاری بن گئے‘
دوبئی نے ثابت کر دیا قوم اگر ترقی کرنا چاہے تو آٹھ اصول بھی کافی ہوتے ہیں اور ہم نے ثابت کر دیا اگر کوئی قوم آگے نہ بڑھنا چاہے تو اسے 280دفعات کا آئین بھی ایک انچ آگے نہیں بڑھا سکتا لہٰذا میری درخوست ہے اب مہربانی فرما کر آئین کو مزید بہتر بنانے کی کوشش بند کریں اور اس پر عمل شروع کریں‘ ہم عمل کی وجہ سے آگے بڑھیں گے‘ ورنہ دائرے کا یہ سفر ہمیں مزید صفر بناتا چلا جائے گا‘ اب صرف افغانستان اور سری لنکا بچے ہیں ورنہ ہم باقی پوری دنیا سے مانگ چکے ہیں اور دنیا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے‘ آپ کمال دیکھیے ہم 50 برسوں (1973ء کے آئین کی تاریخ سے) میں یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہمیں کس قسم کی سپریم کورٹ چاہیے‘ چیف جسٹس کی سلیکشن کیسے ہو گی اور ججوں کی کل تعداد کیا ہونی چاہیے‘
آرمی چیف کی مدت ملازت کیا ہونی چاہیے‘ پولیس کا اصل کام کیا ہے اس نے احتجاج روکنا ہے یا جرائم کا مقابلہ کرنا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ ملک چلائے گی یا عمران خان کا مقابلہ کرے گی اور اگر احتجاج کی کال آئے گی تو کیا ریاست کے پاس انٹرنیٹ اور کنٹینرز کے علاوہ بھی کوئی آپشن ہو گا‘ ملک کے لیے کاروباری طبقہ کتنا ضروری ہے‘ عوام پر ٹیکس کتنا ہونا چاہیے اور ہم اپنی بجلی کیسے پوری کریں گے؟ آپ خود سوچیے جو قوم آج تک یہ بنیادی فیصلے نہ کر سکی ہو اس کی ترقی کا سفر کب اور کیسے شروع ہو گا لہٰذا دوبئی کادوسرا پیغام یہ ہے خدا کے لیے جو بھی فیصلہ کرنا ہے ایک ہی بار کر لیں‘ بار بار فیصلے نہ بدلیں اس سے آپ کا سفر مزید کھوٹا ہو جائے گا‘ آپ مزید خسارے کا شکار ہوجائیں گے اور آپ کو 280 کی بجائے 8 اصول چاہییں بس ان پر عمل ہونا چاہیے‘ آپ پھر آگے بڑھیں گے۔