’’اللہ کی لاٹھی‘‘

17  اکتوبر‬‮  2017

فائزر جس نے خوبیاں اپنا کر کمپنی کو کامیاب بنایا لیکن اولاد نے اسے مشکل میں ڈال دیا چارلس فائزر (Charles Pfizer) ایک جرمن بزنس مین اور کیمیا گر تھا۔ جس نے جرمن سے امریکا ہجرت کر کے ایک کیمیکل کمپنی فائزر (Pfizer) کی بنیاد 1849ء میں رکھی ۔ آج اس کمپنی کو 165 سال ہو چکے ہیں۔ چارلس کا لگایا ہوا پودا آج بھی سرسبز لیکن انتظامیہ کی غلطیوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہے۔ اس طویل

عرصے میں کمپنی نے مختلف اتار چڑھاؤ اور تین نسلیں دیکھ لیں جو اسے یکے بعد دیگر چلاتی آرہی ہیں۔ فائزر جس نے خوبیاں اپنا کر کمپنی کو کامیاب بنایا لیکن اولاد نے اسے مشکل میں ڈال دیا۔فائزر 22 مارچ 1824ء کو جرمن میں پیدا ہوا۔ یہیں پلا بڑھا اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ دورانِ تعلیم اس نے یہ عزم کر لیا کہ وہ ایک بزنس مین بنے گا، لیکن جہاں رہائش پذیر تھا، وہاں کے حالات کاروبار کے لیے سازگار نہ تھے۔ ابھی اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی لیکن اس کے عزم نے کم عمری کو آڑے نہ آنے دیا۔ فائزر بزنس کرنے کے لیے مسلسل سوچ و بچار کر رہا تھا۔ اسے پتہ چلاکہ امریکا میں تجارت کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ اس نے 1840ء کو 16 سال کی عمر میں امریکا کی طرف رختِ سفر باندھا۔ یہاں آ کر مختلف کام کرنے لگا۔ جو نوکری مفید نہ پاتا، اسے چھوڑ کر کسی اور ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا۔ اسی طرح نو سال کا عرصہ بیت گیا۔ چارلس نے اس دوران اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ جب کیمیا گری میں اپنی تعلیم مکمل کر لی تو اپنے کزن ارہرٹ (Erhart) کے ساتھ مل کر بطورِِ پارٹنرشپ کاروبار قائم کیا۔ دونوں نے مل کر 1849ء میں فائزر کے نام سے کیمیکل کمپنی شروع کی۔ جس وقت انہوں نے اس کاروبار کی بنیاد ڈالی، موزوں ترین ایام تھے۔ امریکا کی آبادی بڑھ رہی تھی۔ آبادی کے بڑھنے سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہونے لگے۔ اس طرح ان کے کیمیکل

کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فائزر جب اپنے وطن سے امریکا ہجرت کر کے آیا تو یہاں اسے شہریت اور پاسپورٹ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے پریشان ہونے کے بجائے اپنے کزن کی مدد سے ان مشکلات پر قابو پا لیا، اس کاکزن پہلے ہی امریکا میں رہائش پذیر تھا۔ دونوں نے کمپنی تو قائم کر لی تھی، لیکن ان کے پاس کوئی عمارت نہ تھی جس میں یہ اپنا سیٹ اپ بناتے۔ فائزر نے اپنے والد سے 25

سو ڈالر ادھار لیے جو آج کے اعتبار سے تقریباً ایک لاکھ ڈالر بنتے ہیں۔ اس رقم سے انہوں نے ایک بلڈنگ خریدی اور اس میںکام کرنے لگے۔ یہاں انہوں نے مینوفیکچرنگ پلانٹ لگایا اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا ڈپارٹمنٹ قائم کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک پروڈکٹ (میڈیسن) تیار کی جو سوجن کو کم کرتی تھی۔ اس وقت وہاں سوجن کی بیماری عام تھی۔ میڈیسن کے علاوہ بھی یہ مختلف کھانے پینے کی چیزیں تیار کرنے لگے، تاکہ

کاروبار میں وسعت آئے۔ ان کے لیے ایک نئی مشکل یہ تھی کہ یہ پروڈکٹ تو بنا رہے تھے لیکن اس کی سپلائی اور مارکیٹنگ کے لیے کوئی خاص آدمی نہیں تھا جو اس کا لوگوں اور دکان داروں کو تعارف کروائے اور ان تک پہنچائے۔ کسی بھی کمپنی کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ پروڈکٹ بناتی جائے اور ڈھیروں لگا دے۔ پروڈکٹ بنانے سے پہلے اس کی کھپت معلوم کی جائے، اس کی مارکیٹ میں مانگ کو دیکھا جائے۔ لوگوں میں

اس کی آگاہی کی مہم چلائی جائے۔ تاکہ جیسے ہی آپ پروڈکٹ لانچ کریں تو کسٹمرز اس کی طرف کھنچتے چلے آئیں۔ فائزر کا کام سست روی کا شکار تھا۔ ان دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس کمپنی کا ایک دفتر نیویارک میں قائم کیا جائے، تاکہ یہاں لوگوں کے ساتھ تعلقات بآسانی بنائے جاسکیں اور یہاں مختلف شہروں اور ممالک سے لوگوں کو اپنی پروڈکٹ سے متعارف کروایا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ولیمزبرگ میں دفتر کھول

لیا۔ یہاں رہتے ہوئے یہ مختلف کیمیا گروں سے ملے، ان سے بہتر تعلقات قائم کیے۔ یہ تعلقات ثمر آور ثابت ہوئے۔ فائزر کا کزن ارہرٹ پروڈکٹ کی کوالٹی پر سمجھوتہ کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ اس کے مطابق اگر آپ کاروبار ایک دن کے لیے کر رہے ہیں تو گاہکوں کو دھوکا دے کر بہت بڑی رقم اینٹھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ ہمیشہ کاروبار کرنا اور مارکیٹ میںرہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کسٹمرز کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ جس دن

آپ نے فراڈ شروع کر دیا، آپ کا بزنس بیٹھ جائے گا۔ ان دونوں نے پروڈکٹ کی کوالٹی پر بہت محنت کی۔ کوالٹی ہی ان کی کمپنی کی پہچان بن گئی۔ ان کی پروڈکٹ کی طلب مسلسل بڑھنے لگی، یہاں تک کہ 1871ء میں اس کی سیل 14 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی، جو آج کے اعتبار سے تین کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ 1872ء میں فائزر نے کوشش کر کے 13 دوسرے کیمیا گروں کو آمادہ کیا کہ وہ مل کر ایک مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن بنائیں،

تاکہ اس بزنس کے شعبے میں ترقی کی طرف توجہ دی جائے اور اس کو درپیش مسائل کو حل کیا جائے۔ یہ ٹریڈ ایسوسی ایشن آج بھی امریکا میں کام کر رہی ہے۔ فائزر نے اپنی پروڈکٹ کی عمدہ کوالٹی کی بدولت تین بار ایوارڈ حاصل کیا۔ اس طرح ان کی کمپنی کا شہرہ ہونے لگا اور اس کی پروڈکٹ کے کسٹمر بڑھنے لگے تو انہوں نے دوسرے ممالک میں بھی اپنے دفاتر قائم کر لیے اور وہاں سے اپنی پروڈکٹ کسٹمرز کو سپلائی کرنے

لگے۔ فائزر کمپنی، جس نے اپنی پروڈکٹ کی کوالٹی کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور بزنس میں کامیابی ملی، لیکن آج یہی کمپنی پچھلے دس سالوں سے چار بار لاکھوں ڈالرز جرمانے کا سامنا کرچکی ہے۔ یہ ہمارے لیے بھی درس عبرت ہے کہ والد اپنی ساکھ کے ذریعے بزنس کامیاب بناتا ہے، لیکن ان کی اولاد راتوں رات دولت مند بننے کے چکر میں غیر قانونی اور غلط سرگرمیوں کا حصہ بننے لگتی ہے، جو کاروباری دنیا میں ایک

ناقابلِ تلافی جرم ہے۔ ہمیں اپنے بڑوں کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے کاروبار کو مزید پھیلانا اور بڑھانا چاہیےکیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…