بدتمیز بچوں کو قابو کرنے کیلئے انتہائی مفید تجاویز

7  جولائی  2016

لندن (نیوزڈیسک) برطانیہ میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ کنٹرولنگ رویہ رکھتے ہیں اور ان کو ان کی مرضی کے بغیر کوئی کام کرنے نہیں دیتے ان کے بچے آگے چل کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر پابندیاں لگانے اور جبر کرنے والے والدین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سے ان کے بچوں میں زندگی بھر کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، جبکہ پاکستان نژاد ڈاکٹروں اور کمیونٹی شخصیات کا کہنا ہے کہ والدین کے ڈر سے تنہا زندگی گزرنے والے بچوں میں انتہا پسندانہ نظریات بھی فروغ پاتے ہیں اور وہ دہشت گردی کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔ برطانوی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق5ہزار افراد سے کیے جانے والے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن والدین کا بچوں پر کنٹرولنگ رویہ ہوتا ہے ان کے بچے اپنی زندگی میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتے۔روزنامہ جنگ کے صحافی آصف ڈارکی رپورٹ کے مطابق ان کے ذہن پر بچپن کے نقوش ہمیشہ قائم رہتے ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں وہ بچے آگے کی زندگی میں بہت زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جن کے والدین کا ان کے ساتھ رویہ نرم ہوتا ہے اور انہوں نے بچوں کو آزادیاں دی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ سروے1946ء اور اس کے بعد پیدا ہونے والے افراد سے کیا گیا ہے۔ سروے میں ان سے یہ پوچھا گیا تھا کہ ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں ان کے بچپن کی زندگی کے اثرات کس طرح مرتب رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی پر بچپن میں والدین کے سلوک کے اثرات ساری زندگی کسی نہ کسی طرح موجود رہے ہیں۔ یو سی ایل کے ڈاکٹر مائی سٹافورڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں لوگوں پر اپنی ابتدائی زندگی کے بہت زیادہ اثرات ہوتے ہیں۔ جو والدین بچوں کے ساتھ نرم رویہ ر کھتے ہیں ان کے بچے اپنی زندگی میں بھی والدین کے ساتھ جذباتی طور پر جڑے رہتے ہیں اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والدین اپنے بچوں کی مستقبل کی زندگی کے حوالے انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر والدین پر اقتصادی اور معاشرتی دبائو نہ ہو تو وہ اپنے بچوں کی زیادہ بہتر انداز میں خدمت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والدین بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ پاکستانی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں کو کنٹرول کرنے کا معاملہ زیادہ تر پاکستانی، بنگلہ دیشی اور بھارتی والدین کے اندر ہوتا ہے۔ والدین کا خیال ہوتا ہے کہ اگر بچوں کو آزادیاں دی گئیں تو وہ خراب ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر فرخ حسین نے جنگ لندن کو بتایا کہ برطانیہ اور مغربی ممالک میں پاکستانی بچے ڈبل سٹینڈرڈ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف وہ یورپی سکولوں اور معاشرے کی کھلی فضائوں میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور جب وہ گھروں میں آتے ہیں تو ان کو خالص پاکستانی یا اسلامی ماحول مل جاتا ہے۔ اس طرح بچے یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ان کو کس ماحول میں رہنا ہے، جبکہ ان کے والدین اس ڈر سے کہ ان کے بچے یورپی معاشروں میں بگڑ نہ جائیں، ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دیتے ہیں۔ انہیں گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیتے، مگر جب وہ کالج اور یونیورسٹیوں میں پہنچتے ہیں تو دوسرے لوگوں سے ملنے کے بعد والدین سے بغاوت کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بچے یونیورسٹیوں میں انتہا پسندوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں اور دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ حسین نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ مفاہمت سے رہیں اور اگر انہیں کوئی بات سمجھانا چاہتے ہیں تو دلائل کے ساتھ سمجھائیں۔ ممتاز طبی ماہر ڈاکٹر جاویدشیخ نے کہا کہ جن بچوں کو والدین جبر کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں ان میں مستقبل میں اعتماد نہیں پیدا ہوتا اور وہ ہمیشہ کم اعتمادی کا شکار رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بچوں کی شخصیت نکھر کر سامنے نہیں آتی۔ بارکنگ کی کونسلر لیلیٰ بٹ نے کہا کہ والدین کو اپنے بچوں پر بے جا پابندیاں نہیں لگانی چاہئیں۔ ان سے بچے سہمے رہتے ہیں، ان کے اعتماد کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے بچے اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کے سلسلے میں ہمیشہ دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…