لندن (این این آئی)پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹاپ آرڈر بیٹر شان مسعود نے کہا ہے کہ انہوں نے کبھی خود کو کسی ایک فارمیٹ یا پوزیشن پر محدود نہیں کیا، پاکستان کیلئے کسی بھی پوزیشن پر کھیلنے کا موقع ملا وہ بخوشی بیٹنگ کریں گے۔ ایک انٹرویو میں انہوںنے کہا کہ کاؤنٹی کرکٹ میں انہیں اپنا کھیل تسلسل کے ساتھ بہتر کرنیکا موقع ملا۔شان نے کہاکہ پاکستان کیلئے یہ اچھا سائن ہے کہ ٹاپ آرڈر بیٹرز میں کافی سخت مقابلہ ہے،
مجھے اس مقابلے میں شامل ہونا ایک بہتر پلیئر بنائے گا کیوں کہ جب دیگر پلیئر ورلڈ کلاس پرفارمنس دیں گے تو مجھے بھی اپنا گیم بہتر کرنا ہوگا، میں نے جس طرح کبھی بطور پلیئر اپنے آپ کو محدود نہیں کیا ویسے ہی بطور بیٹر اپنی پوزیشن کو محدود نہیں کیا، پاکستان سے جس پوزیشن پر کھیلنے کا موقع ملا کھیلوں گا۔شان مسعود نے کہا کہ وہ شکر ادا کرتے ہیں کہ ان سے رنز ہورہے ہیں اور اس بات کا بالکل بھی پریشر نہیں لیتے کہ انہیں پاکستان سے کھیلنے کا موقع نہیں مل رہا کیوں کہ ان کی نظر میں ایسے شکوے شکایت کرنا ناشکری ہوتی ہے۔انہوںنے کہاکہ میں نے پچھلے دو سال میں بہت کچھ سیکھا ہے، خاص طور پر جب ٹیم سے باہر ہوا ، ملتان کی کپتانی چھوٹی، سینٹرل کنٹریکٹ چھوٹا ، پلیئنگ الیون کی جگہ گئی، 8 ماہ قبل جب بہن کا انتقال ہوا تو اس کے بعد زندگی کی حقیقت کھلی۔کرکٹر نے کہا کہ ان سب کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ کرکٹ ایک گیم ہے، اس کو انجوائے کریں زندگی میں کرکٹ سے بھی بڑھ کر چیزیں ہوتی ہیں، اس سے بڑا کیا موقع ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی ڈومسیٹک ٹیم یا کاؤنٹی ٹیم یا قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔اوپننگ بیٹر نے کہا کہ میں نے پوری زندگی تو کرکٹ نہیں کھیلنی اس لیے جو کرکٹ کھیل رہا ہوں، اس کو انجوائے کر رہا ہوں اور سلیکشن ہونے نہ ہونے کا پریشر نہیں لے رہا، جب وقت آئے گا تو ضرور پاکستان کیلئے بھی کھیلوں گا۔کاؤنٹی کرکٹ میں شان مسعود نے ڈربی شائر کی نمائندگی کرتے ہوئے رنز کے انبار لگادئیے ہیں، انہوںنے کہاکہ کاؤنٹی کرکٹ میں ان کو اپنا کھیل بتدریج اور تسلسل کے ساتھ بہتر کرنے کا موقع ملا، یہاں ایک پراسس سے گزرنے کا موقع ملا جس سے کھیل پہلے سے بہتر ہوا۔انہوںنے کہاکہ جب آپ رنز کے بارے میں نہیں سوچتے اور کوشش کرتے ہیں کہ
لمبا کھیلیں تو رنز خود بخود بنتے ہیں اور ریکارڈز میں اضافہ ہوتا ہے۔ شان مسعود نے کہا کہ میں نے کبھی خود کو ایک فارمیٹ کے لیے محدود نہیں سمجھا اور اگر کسی نے ان کو محدود نظر سے دیکھا تو انہوں نے اس کو ایک چیلنج لیا اور اس حد سے آگے کا پرفارم کرنیکا سوچا۔
انہوں نے مانا کہ ماضی میں وہ اس انداز میں وائٹ بال کرکٹ نہیں کھیل رہے تھے جو کہ اس فارمیٹ کی ضرورت تھی تاہم انہوں نے خوف کو جانچا اور دیکھا کہ کہاں بہتری ہوسکتی ہے اور اپنا کھیل بہتر کرنے کیلئے حل نکالنے کی کوشش کی۔شان مسعود نے کہا کہ کافی لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے،
ڈیپارٹمنٹ میں عمر رشید اور ندیم خان نے کافی اعتماد دیا، وائٹ بال کرکٹ بہتر کرنیکیلئے پھر پی ایس ایل کھیل کر سنگاکارا، معین علی، جیمز وینس، روی بوپارا، شین واٹسن یا پھر پاکستان کے پلیئر بابر اعظم یا کامران اکمل ان سب کو دیکھ کر بہت سیکھنے کو ملا۔انہوں نے کہا کہ
پی ایس ایل نے مجھے کافی مدد دی، انہوں نے اپنے ڈومیسٹک کوچز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عبدالرحمان جیسے کوچ کے ساتھ کام کرکے بھی مجھے بہت مدد ملی، اینڈی فلاور کے ساتھ اور پھر گیری کرسٹن کے ساتھ کام کیا جس نے میری بہت مددکی۔
انڈیا کے خلاف ڈربی شائر کی قیادت کے حوالے سے شان مسعود نے کہا کہ انڈین ٹیم کیخلاف کھیلنا اچھا تجربہ رہا، پاکستام اور انڈیا کا مقابلہ بین الاقوامی کرکٹ کا اثاثہ ہے لیکن جب آپ پاکستان سے نہیں کھیل رہے ہوتے تو انڈیا کیخلاف کھیلنا مختلف تجربہ ہوتا ہے۔