کراچی(این این آئی)پاکستان سپر لیگ ( پی ایس ایل) کی ٹیم ملتان سلطانز میں شامل جنوبی افریقی کرکٹر عمران طاہر نے ٹیم کے کپتان محمد رضوان کی محنت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ رضوان کی کامیابی محنت کا نتیجہ ہے۔ ایک انٹرویومیں عمران طاہر نے کہا کہ پی ایس ایل میں ملتان سلطانز کا آغاز اچھا ہوا ہے، امید ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ٹیم کے کپتان سے متعلق سوال پر جنوبی
افریقی لیگ اسپنر نے کہاکہ محمد رضوان کی کامیابی اس کی محنت کا نتیجہ ہے، اس کو جب جب موقع ملا اس نے فائدہ اٹھایا، وہ بھی اس مرحلے سے گزرے ہیں تو اندازہ ہے کہ اس نے یہاں پہنچنے کیلئے بہت کچھ سہا ہے اور آپ کڑے وقت سے گزر کر کامیابی حاصل کرتے ہیں تو وہ لمبی ہوتی ہے اور اس کا مزہ بھی آتا ہے۔عمران طاہر نے کہا کہ انہیں ان کے سینئرز نے چیزیں اس انداز میں نہیں بتائیں جس انداز میں بتانا چاہیے تھی اس لیے اب وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی اور نوجوان کو ایسا محسوس نہ ہو، وہ یہ کسی پر احسان سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ اس سے کسی نوجوان کرکٹر کا بھلا ہوجائے گا اور اس کو بھی یہ فن اچھی طرح آجائے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ جب بھی کسی نوجوان بولر سے ملتے ہیں تو کوشش ہوتی ہے کہ اپنا تجربہ اسے بتائیں اور جو آتا ہے سکھائیں کیوں کہ جب وہ سیکھ رہے تھے تو ان کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ میں ہمیشہ بہت اچھا تجربہ رہتا ہے،پاکستان آکر ہمیشہ اچھا لگتا ہے کیوں کہ وہ یہی پلے بڑھے ہیں، جو پاکستان میں بڑا ہوا ہو اس کی خواہش تو یہی ہوگی وہ پاکستان کے لیے کھیلے مگر وہ جنوبی افریقا کے شکرگزار ہیں کہ وہا ں انھیں موقع ملا اور ان کا خواب پورا ہوا۔عمران طاہر نے کہا کہ اپنے ملک میں بطور اوور سیز پلیئر آکر کھیلنا عجیب تو لگتا ہے مگر اتنی محبت ملتی ہے کہ لگتا نہیں کہ باہر سے آیا ہوا کھلاڑی ہوں، ساتھ ہی ملتان سلطانز کے ڈریسنگ روم میں جو ماحول ہے اس سے لگتا ہے اپنے گھر میں ہی ہوں۔عمران طاہر نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ اعلیٰ پائے کی لیگ ہے، اس میں مقابلہ بہت سخت ہے، بولرز کیلئے آسان نہیں ہوتا مگر اس سے بولرز کو چیلنج بھی ملتا ہے کہ وہ خود کو بہتر سے بہتر کرے کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ذرا سی بال لائن سے ہٹی تو اس کو باؤنڈری پڑے گی۔انہوں نے کہا کہ جوں جوں بیٹرز چالاک ہو رہے ہیں، بولرز بھی چالاک ہوتے جا رہے ہیں، بطور اسپنر وہ یہی سوچتے ہیں کہ جتنی ورائٹی ہو وہ کم ہے، جدید کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ ورائٹی رکھنا ہوتی ہے، اب ایورج بولنگ نہیں چلتی کیوں کہ بیٹرز اب ہرجگہ شاٹس کھیل سکتے ہیں، طرح طرح کے شاٹس کھیلتے ہیں اس لیے بولرز کو بھی اپنا معیار بلند کرنا پڑتا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ فیلڈ میں
ان کی بھرپور انرجی کی کیا وجہ ہے تو عمران طاہر نے کہا کہ انہیں یہ سب کچھ بہت دیر سے ملا اس لیے ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر میچ کو انجوائے کریں، کوشش ہوتی ہے کہ جہاں کھیلیں اپنی ذمہ داری بھرپور نبھائیں کیوں کہ اب ان کی عمر کے زیادہ پلیئرز نہیں، نوجوانوں سے مقابلہ ہے تو خود کو فٹ رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔42 سالہ کرکٹڑ نے کہا کہ ان کی سیلیبریشن نیچرل ہے، وہ ارادہ کرکے نہیں بھاگتے، شاید ان کی سیلیبریشن ان کی ساری جدوجہد کی عکاس ہے جو یہ ظاہر کرتی کہ ’’ میں اس ہی جگہ سے
ہوں، میں کھیل سکتا تھا مگر مجھے چانس دیر سے ملا۔دوران گفتگو عمران طاہر نے شاہنواز دہانی کے ساتھ سندھی بولی جانے والی وائرل ویڈیو پر بھی بات کی اور بتایا کہ ان کے سندھی جاننے کی وجہ سکھر میں والد کے کام کی وجہ سے رہائش ہے، وہ سندھی سمجھ لیتے ہیں، جب شاہنواز دہانی سے پہلی بار سندھی میں بات کی تو وہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی، شاید اس کو اپنائیت محسوس ہوئی ہوگی۔جنوبی افریقی کھلاڑی نے اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ ٹیم میں ہر کوئی ایک دوسرے کا ساتھ دیتا ہے،
کسی کی کامیابی سے اپنی جگہ جانے کا اندیشہ کسی کو نہیں، ایسا ہی ماحول چنئی سپر کنگز میں بھی تھا، جب سب مل کر محنت کرتے تو اس کے مثبت نتائج ہوتے ہیں۔اپنے مستقبل پر بات کرتے ہوئے عمران طاہر کا کہنا تھا کہ ابھی تو وہ کرکٹ انجوائے کر رہے ہیں جب تک ایسی ہی بولنگ کرتے رہے تو کھیلتے رہیں گے، فی الحال ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز کے لیے اپنی ٹیم کو بھی دستیاب ہیں، خواہش ہے کہ آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلیں ، امید ہے جنوبی افریقا کے سلیکٹرز دو سال سے ان کی لیگز کی کارکردگی دیکھیں گے اور یہ تسلیم کریں گے کہ وہ ٹیم میں جگہ کے حقدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی کوشش ہوگی کہ کرکٹ سے وابستہ رہیں اور بطور لیگ اسپنر کوچ نوجوانوں کی مدد کے لیے ہر وقت میدان میں موجود رہیں۔