اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ویسٹ انڈیز کے لیجنڈ کھلاڑی اور دنیائے کرکٹ میں احترام کی نظروں سے دیکھنے جانے والے سر ویون رچرڈ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ میرےکیریئر کے آخر پر کرکٹ کی ایک نئی بیماری نے سراُٹھایا، وہ تھی میچ فکسنگ یا اسپاٹ فکسنگ، سچ تو یہ ہے کہ اس بے ایمانی نے کرکٹ کے حسن کو گہن لگا دیا۔ انہی دنوں ایسے کیسز پر بحثیں ہوا کرتی تھیں
اور جب شین وارن نے یہ انکشاف کیا کہ پاکستانی سلیم ملک نے آسٹریلیا اور پاکستان کے مابین کھیلے جانے والے فائنل میچ میں رشوت کی پیش کش کی اور کہا کہ اس دن بُری باولنگ کروانے کے عوض کچھ رقم دی جائے گی۔ اس آفر نے تو کرکٹ کی دنیا میں بھونچال بھرپا کردیا۔ اگرچہ اس اسکینڈل میں سلیم ملک، وسیم اکرم اور اعجاز احمد کو بری کردیا گیا، لیکن اس کی کڑواہٹ آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ یہ بھی سنا کہ 1994ء میں شین وارن سٹیووا اور سلیم ملک نے بھارتی بک میکر کو کچھ اہم معلومات فروخت بھی کی تھیں۔ شین وارن اور سٹیوا کو تو معمولی جرمانے کرکے بچالیا گیا لیکن آئی سی سی اس موقع پر کچھ اہم کردیتی تو یہ برائی ابتدا میں ہی ختم ہو جاتی۔ پھر یہ ہوا کہ ہم جب بھی بھارت یا پاکستان گئے۔ اس طرح کی کہانیاں سننے کو ملتی رہیں۔1983-84ء میں بھارتی دورے کے موقع پر مجھے ہوٹل میں فون کال آئی اور بک میکر نے پرکشش معاوضے کے ساتھ یہ آفر کی کہ امپائر خریدا جاچکا ہے، اگر آپ اپنے بلے کو تھپکی دے کر سلا سکتے ہیں تو آپ کے اکاؤنٹ میں آپ کی سوچ سے بڑھ کر رقم منتقل کی جاسکتی ہے۔ میں نے کال کاٹ دی۔ رات بھر نیند نہ آئی۔ صبح میچ تھا۔ میں سب بھول کر میدان میں اُترا ا، لیکن کپل دیو نے ڈاؤن دی لیگ سائیڈ پر زور دار اپیل کر کے میرا ماتھا ٹھنکا دیا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ کپل دیو سے اس طرح
کی اپیل کی توقع نہ تھی۔ یہ حیرت اور شدید ہوگئی جب میں نے دیکھا کہ اس قدر بیہودہ اپیل پر مجھے آوٹ دیا جاچکا ہے۔ ڈریسنگ روم میں آکر میں نے اپنے بلے پر سارا غصہ نکالا اور کچھ چیزیں توڑ دیں۔ کپل دیو اور امپائر کی یہ حرکت تو ثابت ہوچکی تھی کیونکہ بک میکر نے رات مجھے یہی تو بتایا تھا۔ ڈریسنگ روم میں بیٹھے ہوئے میرا دھیان عمران خان کی طرف پلٹا۔ میرا ایمان تھا
کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے بہت پیار کرتا تھا۔ وطن سے اس کا لگاؤ ناقابلِ تردید ہے۔ یہ محبت ویسی ہی تھی جیسی میری ویسٹ انڈیز کے لیے اور ایان بوتھم کی انگلینڈ کے لیے۔ عمران کا اپنے وطن پر فخر اسے کسی منفی سرگرمی میں ملوث ہونے ہی نہیں دے سکتی تھی۔ میرے خیال میں اس بے ایمانی کی تحقیقاتبروقت ہوجاتیں، تو مستقبل کی کرکٹ شفاف ہی رہتی۔