اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پرندوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ابابیل 10 ماہ تک مسلسل پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ اپنے اس پورے سفر میں وہ ایک لمحے کےلئے بھی زمین پر نہیں اُترتا اورپرواز کےدوران ہی اپنی غذا بھی حاصل کرتا ہے.ابابیل کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے اور ایک پرندہ اوسطاً 20 سال تک زندہ رہتا ہے اس سے پہلے مسلسل طویل
ترین مدت تک پرواز کا ریکارڈ 6 ماہ تھا جو ابابیل ہی کی ایک قسم ’’الپائن سوئفٹ‘‘ کے پاس تھا۔ماہرین کا کہنا تھا کہ ابابیل اپنا گھونسلا کنوئیں میں بناتا ہے۔ اپنےبچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ توابابیل کے پاس کوئی مناسب جگہ یا سہولت دستیاب ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ہے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ہے۔واضح رہے کہ ابابیل ہی وہ پرندہ ہے جو خانہ کعبہ کو بچانے کیلئے اللہ کی جانب سے بھیجا گیاتھااور اس کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔یہ واقعہ کچھ ایسے ہے کہ حبشہ (ایتھوپیا) کا بادشاہ تھاجس نے 525ء میں یمن فتح کیا۔ مسیحیت کا پر جوش حامی تھا۔ اس نے یمن کے دار الحکومت صنعا میں ایک عالی شان گرجا تعمیر کروا دیا تھا۔ 570ء میں مکہ پر حملہ کیا جس کا مقصد خانہ کعبہ کو منہدم کر کے صنعا کے گرجے کو مرکزی عبادت گاہ کا درجہ دینا تھا۔ ابرہہ کی فوج میں ایک ہاتھی بھی تھا جس کا نام ابن ہشام نے محمود لکھا ہے۔ چونکہ عربوں کے لیے یہ ایک انوکھی چیز تھی اس لیے انھوں نے حملے کے سال کا نام عام الفیل (ہاتھی کا سال) رکھ دیا۔ قرآن مجید کی سورۃ فیل میں ہے کہ جب ابراہہ نے مکے پر حملہ کیا تو خدا نے مکے والوں کی مدد کے لیے ابابیلیں بھیجیں جن کے پنجوں میں کنکریاں تھیں۔ یہ کنکری جس شخص کو لگ جاتی، اس کا بدن پھٹ جاتا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرجاتا۔
اس طرح ابراہہ کو بے نیل مرام واپس جانا پڑا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے پچاس روز پہلے کا ہے۔ اسی سال مکے میں چیچک کی وبا پھیلی جس سے اکثر مستششرقین اور کچھ مسلمان علما نے بھی یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ابرہہ کی پسپائی کا سبب دراصل یہی وبا تھی جس کے باعث اس کی فوج کا ایک بڑا حصہ ناکارہ ہو گیا تھا۔