حضرت زین الدین بوشیؒ فرماتے ہیں کہ منصورہ کی لڑائی میں عیسائیوں نے کچھ مسلمان پکڑ لیے اور انہیں قیدی بنا لیا۔ ان قیدیوں میں حضرت عبدالرحمان فقیہ بھی تھے۔ وہ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے اور آپ نے یہ آیت بھی پڑھی۔ ترجمہ: ’’یعنی جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور رزق دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد عیسائیوں نے جب حضرت عبدالرحمان فقیہ کو بھی قتل کر دیا تو ایک عیسائی سردار ان کی نعش کے پاس آ کر کہنے لگا۔ ’’اے مسلمانوں کے بزرگ! تم کہا کرتے تھے۔ اللہ کی راہ میں
قتل ہونے والے زندہ ہیں۔ بتاؤ وہ زندگی کہاں گئی؟ حضرت فقیہ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا۔ ’’زندہ ہوں رب کعبہ کی قسم!‘‘ عیسائی یہ سن کر حیران رہ گیا اور گھوڑے سے اتر کر آپ کا منہ چومنے لگا اور اپنے سپاہیوں سے اٹھوا کر آپ کو اپنے شہر میں لے گیا۔ (شرح الصدور صفحہ 86) اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ شہداء کرام زندہ ہوتے ہیں، انہیں مردہ سمجھنا بھی ممنوع ہے اور مسلمانوں کا ان کے زندہ ہونے پر ایمان ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انتقال فرمانے کے بعد بھی یہ اللہ والے سنتے ہیں اور بعض اوقات جواب بھی دے دیتے ہیں۔