’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا ہوا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی اگر میرے بیٹے بڑے نہ ہوتے اور وہ مجھے کنٹرول نہ کرتے تو میرا گھر ٹوٹ جاتا‘ ہم دونوں میاں بیوی اب اکٹھے رہ رہے ہیں لیکن ہماری بات چیت نہیں ہوتی‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کروں‘‘ وہ اداس لہجے میں بتا رہے تھے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا‘ ان کی کہانی دل چسپ تھی‘ ان کی لو میرج ہوئی تھی‘ میاں بیوی پوری زندگی خوش رہے‘ اللہ تعالیٰ نے صحت مند بچے دیے‘ وہ پڑھ لکھ کر سیٹل ہو گئے‘ گھربار‘ گاڑی بلکہ گاڑیاں اور کاروبار بھی ٹھیک تھا‘
سٹیٹس بھی تھا لہٰذا ان کی زندگی میں مسئلہ کوئی نہیں تھا‘ بیگم صاحبہ بھی نہایت عاجز اور ہمدرد تھیں‘ یہ ہمیشہ خوش رہتی تھیں لیکن پھر شادی کے 32سال بعد ان کا خوف ناک جھگڑا ہوا اور آخر میں دونوں کے درمیان بات چیت بند ہو گئی‘ یہ ہفتے میں ایک دن میرے ساتھ ملاقات کرتے ہیں‘ کل تشریف لائے تو ان کی جذباتی حالت خراب تھی‘ آنسو ٹھوڑی تک آ رہے تھے اور آہیں رک نہیں رہی تھیں‘ میں نے انہیں پانی کی بڑی بوتل اور گرین ٹی کے تین کپ پلائے‘ جب ان کی حالت سنبھلی تو میں نے جھگڑے کی وجہ پوچھی‘ لڑائی کی وجہ انتہائی مزاحیہ تھی‘ انہوں نے بتایا پندرہ دن قبل میں شام کے وقت گھر گیا تو میری بیوی کا منہ پھولا ہوا تھا‘ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے شکوہ کیا جب ہماری شادی ہوئی تھی تو آپ نے مجھے منہ دکھائی کیوں نہیںدی تھی؟ میں نے حیرت سے پوچھا‘ منہ دکھائی کیا ہوتی ہے؟ اس کا جواب تھا اچھا اب آپ کو یہ بھی معلوم نہیں!
مجھے واقعی پتا نہیں تھا‘ میں نے اسے بڑی مشکل سے یقین دلایا میں اس واہیات چیز کے بارے میں بالکل نہیں جانتا‘ مجھے اس نے بتایا‘ خاوند شادی کی پہلی رات بیوی کو جو تحفہ دیتا ہے وہ منہ دکھائی ہوتی ہے اور آپ نے مجھے کوئی تحفہ نہیں دیا تھا‘ میں نے جواب دیا‘ میں تمہیں پوری زندگی تحفے دیتا رہا‘ ان تحفوں کے سامنے منہ دکھائی کی کیا حیثیت تھی لیکن اس کا کہنا تھا منہ دکھائی زندگی کا اہم ترین تحفہ ہوتا ہے‘ عورتیں اسے پوری زندگی سنبھال کر رکھتی ہیں‘ اس چھوٹی سی بات پر ہماری تکرار ہوئی‘ میں اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا‘ میں نے غصے سے سالن کا ڈونگا اٹھا کر دیوار پر مار دیا‘ میری بیوی نے چاولوں کی ڈش میرے اوپر انڈیل دی اور اس کے بعد ہم دونوں کے درمیان دھینگا مشتی شروع ہو گئی‘ ہم نے ایک دوسرے کا سر کھول دیا‘ ہمارے بچے پہنچے تو ہم دونوں زخمی حالت میں دیواروں کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اور ایک دوسرے کو بددعائیں دے رہے تھے‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہم میں 32 سال بعد اتنا غصہ اور نفرت کہاں سے آگئی؟ ہم دونوں ایک جان اور دو قالب ہوتے تھے‘ ہم اچانک ایک دوسرے کے دشمن کیسے بن گئے؟‘‘۔
میں نے اطمینان سے ان کی بات سنی اور اس کے بعد ان سے پوچھا‘ آپ سوچ کر بتائیں اس دن آپ کی بیوی سے کس کی ملاقات ہوئی تھی؟ وہ سوچتے رہے لیکن انہیں یاد نہ آیا‘ ان کی بیگم میری منہ بولی بہن تھی‘ میں نے انہیں فون کر دیا‘ انہوں نے بتایا اس دن میری ایک پرانی سہیلی مجھ سے ملاقات کے لیے آئی تھی‘ میں نے ان سے پوچھا‘ کیا منہ دکھائی کی بات اس نے آپ سے کی تھی؟ بھابھی نے تھوڑا سا سوچ کر ہاں میں جواب دے دیا‘ میں نے فون سپیکر پر شفٹ کیا‘ بھابھی کو رانا صاحب کی موجودگی کا بتایا‘ رانا صاحب کو فون کے قریب بٹھایا اور پھر دونوں سے عرض کیا ’’ہماری زندگی میں رحمان اور شیطان دونوں انسانوں کے روپ میں آتے ہیں‘ ہمیں روز بعض ایسے بابرکت لوگ ٹچ کرتے ہیں جن پر اللہ مہربان ہوتا ہے‘یہ لوگ رحمت ہوتے ہیں‘ ان کی ذات دوسروں کے لیے رحمت‘ برکت‘ آسانی اور خوشی کا سبب بنتی ہے‘ یہ لوگ تصوف کی دنیا میں رحمانی کہلاتے ہیں‘ ان کی خاص نشانی شکر اور ماشاء اللہ ہے‘ یہ جب بھی دوسروں سے ملیں گے ان کی اچیومنٹ‘ ان کی خوشیوں اور ان کی کام یابیوں پر دل سے ماشاء اللہ کہیں گے‘
یہ انہیں شکر کرنے اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی تلقین کریں گے‘ رحمانی لوگوں سے ملاقات کے بعد آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں‘ آپ کو اپنے سر‘ اپنے کندھوں کا بوجھ ہلکا محسوس ہوتا ہے جب کہ ان کے برعکس کچھ لوگ شیطان کے ایجنٹ ہوتے ہیں‘ یہ اپنی ذات سے شیطانیت‘ بے چینی‘ فساد‘ جھگڑا اور تلخی ٹرانسمٹ کرتے ہیں‘ یہ جب آپ کے قریب آتے ہیں تو آپ کا سکھ‘ چین‘ آرام‘ آسائش‘ امن اور خوشی ختم ہو جاتی ہے‘ اہل تصوف ان لوگوں کو شیطانی کہتے ہیں‘ شیطانوں کا سب سے بڑے ہتھیار حقارت اور کیوں ہوتا ہے‘ شیطان کا جنم حقارت اور کیوں سے ہوا تھا‘ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا انسان مجھ سے حقیر ہے‘ میں اسے سجدہ کیوں کروں چناں چہ یہ لوگ جب بھی آپ سے ملیں گے یہ آپ کو کیوں کے ہتھیاروں سے حقیر ثابت کر دیں گے اور یوں آپ کی زندگی کا چین اور امن ختم ہو جائے گا‘‘ میں نے بھابھی سے عرض کیا ’’بھابھی آپ کی وہ سہیلی بھی شیطان کی ایجنٹ تھی‘ اس نے صرف ایک فقرے سے یعنی تمہارے خاوند نے تمہیں منہ دکھائی کیوں نہیں دی؟ آپ کی ازدواجی زندگی کا بیڑہ غرق کر دیا‘ یہ شیطان کا وار تھا‘ اللہ نے آپ پر کرم کیا‘ آپ لوگ بچ گئے‘ میں نے سینکڑوں لوگوں کو اس وار کے ذریعے برباد ہوتے دیکھا لہٰذا آپ لوگ ایسے لوگوں سے بچ کررہا کریں‘‘ بھابھی نے لمبی اور ٹھنڈی آہ بھری‘ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور رانا صاحب سے معذرت کر لی‘ رانا صاحب نے بھی بیگم سے اپنا تلخ نوائی پر معافی مانگ لی اور یوں دونوں دوبارہ شیروشکر ہو گئے۔
میری اپنی زندگی شیطان کے ایجنٹوں سے بھری پڑی ہے‘ میں نے 1996ء میں پہلی گاڑی خریدی تھی‘ وہ زیرو میٹر مہران تھی‘ میں نے بڑی مشکل سے دن رات کام کر کے تین لاکھ روپے جمع کیے اور مہران خرید لی‘ میں نے ابھی اسے اپنے دروازے پر کھڑا ہی کیا تھا کہ مجھے ایک شیطان ٹکر گیا‘ اس نے گاڑی کے گرد چکر لگایا‘ قیمت پوچھی اور پھر مسکرا کر کہا‘ آپ نے سوئفٹ کیوں نہیں خریدی‘ وہ اس سے کہیں زیادہ ا چھی‘ آرام دہ اور بڑی ہے اور مہران اور اس کی قیمت میں بھی صرف ڈیڑھ لاکھ روپے کا فرق ہے‘ آپ یقین کریں یہ فقرہ سن کرمجھے میری گاڑی بری لگنے لگی‘ میں اس کے بعد جہاں بھی جاتا تھا مجھے سوئفٹ نظر آتی تھی اور مجھے اپنی حماقت پر افسوس ہوتا تھا‘ یہ افسوس مہران کے بکنے تک جاری رہا‘ میں آج بھی جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی بے وقوفی پر افسوس ہوتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے 27 سال کی عمر میں اپنی کمائی سے زیرو میٹر گاڑی خریدنے کی توفیق دی تھی لیکن میں اس خوشی کو چھوڑ کر دوسری گاڑی کے تاسف میں گھلنے لگا‘ مجھ سے زیادہ بے وقوف کون تھا‘ اسی طرح میں 2000ء میں ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کاپی رائیٹنگ کرتا تھا‘
میں وہاں صرف دو گھنٹوں کے لیے جاتا تھا اور مجھے وہاں سے ماہانہ پچاس ہزار روپے ملتے تھے‘ یہ اس زمانے میں بڑی رقم تھی‘ یہ میرے بچوں کی فیس اور گھر کی گروسری کور کرتی تھی لیکن پھر ایک دن میرا ایک پرانا دوست وہاں آیا‘ اس نے میرا ڈیسک دیکھا اور طنزاً مسکرا کر کہا‘ تم اپنا سٹیٹس دیکھو‘ تم اے پی این ایس سے بیسٹ کالمسٹ کا ایوارڈ لے چکے ہو اور تم اس وقت دو بائی تین فٹ کے ڈیسک پر بیٹھے ہو‘ تم اپنی بے عزتی کیوں کرا رہے ہو؟بس ان چند فقروں کی دیر تھی اور مجھے وہ جاب بری لگنے لگی‘ میں نے اپنے ’’سٹیٹس‘‘ کے چکر میں وہ جاب چھوڑ دی اور اس کے بعد مجھے اس سے آدھی رقم کے لیے روزانہ چھ چھ گھنٹے اضافی کام کرنا پڑا‘ یہ صرف دو مثالیں نہیں ہیں‘ میری زندگی کی ہر اچیومنٹ کے بعد شیطان کا کوئی نہ کوئی ایجنٹ میری زندگی میں ضرور آیا اور اس نے چند لمحوں میں میری اس کام یابی کا مزہ کرکرا کر دیا‘ اللہ نے کرم کیا اور زندگی کے مختلف مراحل کے دوران مجھے رحمان اور شیطان کا فرق سمجھ آ گیا‘ میرے پاس اب جب بھی کوئی ایسا شخص آتا ہے جو دائیں بائیں دیکھ کر برا سا منہ بناتا ہے اور پھر کہتا ہے سر یہ آپ نے کیا کر دیا‘ آپ اگر اس کی جگہ یہ لے لیتے تو کتنا اچھا ہوتا یا آپ نے یہ کیوں نہیں لیا تو میں مسکرا کر دل ہی دل میں سورۃ الناس پڑھتا ہوں اور پھر اپنے کان بند کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔
آپ کی زندگی میں بھی روزانہ ایسے لوگ آتے ہوں گے ‘آپ بس ان سے بچ جائیں‘ یہ شیطان کے ایجنٹ ہیں‘ یہ آپ کی خوشیاں اور کام یابیاں برباد کرنے کے لیے آتے ہیں‘ یہ آپ کا سکھ اور چین مارنے کے لیے آتے ہیں چناں چہ آج سے جب بھی کوئی شخص آپ سے پوچھے‘ تمہارے خاوند نے منہ دکھائی میں تمہیں کیا دیا تھا‘ تم نے ورکنگ وومن کے ساتھ شادی کیوں کی‘ تمہارا خاوند روزانہ لیٹ کیوں آتا ہے‘ تمہارے بچے تمہاری کیوں نہیں سنتے‘ تمہیں دفتر سے اتنی کم تنخواہ کیوں ملتی ہے‘ تمہارے بیٹے نے اتنے کم نمبر کیوں لیے‘ تم نے اپنے بچوں کو آئی فون کیوں نہیں لے کر دیا‘ تمہارے ابو تمہیں نیا لیپ ٹاپ لے کر کیوں نہیں دیتے‘ تم اپنی گاڑی کیوں نہیں بدل رہے‘ تم اس محلے میں کیوں رہ رہے ہو‘ تم یورپ میں امیگریشن کیوں نہیں لیتے‘ تم اتنے کم پیسوں میں گزارہ کیسے کرتے ہو‘ تم اپنے فضول باس کی فضول باتیں کیوں سن لیتے ہو‘
تم اپنے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتے‘ تمہارے بچے تمہارے ساتھ بدتمیزی کیوں کرتے ہیں‘ تم اتنا کام کیوں کرتے ہو‘ تم پتلے کیوں ہو گئے ہو‘ تمہارا رنگ کیوں پیلا پڑ رہا ہے اور تم اس مسجد میں نماز کیوں پڑھتے ہو تو آپ اس کی طرف مسکرا کر دیکھیں‘ اللہ تعالیٰ سے شیطان سے پناہ کی دعا کریں اور وہاں سے جلد سے جلد نکل جائیں‘کیوں؟ کیوںکہ شیطان آپ تک پہنچ چکا ہے اور آپ اب جتنا عرصہ اس کے قریب رہیں گے آپ کا امن‘ سکون‘ شانتی اور سکھ کا دریا خشک ہوتا رہے گا یہاں تک کہ آپ بنجر ہو جائیں گے لہٰذا اٹھیں اور بھاگ جائیں‘ اسی میں عافیت ہے۔